تیزی سے ختم ہونے والی خوراک انتہائی تشویش ناک صورتحال اختیار کر گئی ہے،ماہرین، طوفانوں، سیلابوں، قدرتی اور مصنوعی آفات کے نتیجے میں زراعت تباہ ہو رہی ہے،سیمینار محمد علی شاہ ،ذوالفقار شاہ اور دیگر کا خطاب

جمعرات 26 جون 2014 17:20

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26جون۔2014ء) سرکاری محکمات کے افسران، ماہی گیر نمائندوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ تیزی سے ختم ہونے والی خوراک انتہائی تشویش ناک صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ ایک طرف طوفانوں، سیلابوں، قدرتی اور مصنوعی آفات کے نتیجے میں زراعت تباہ ہو رہی ہے تو دوسری جانب دریاؤں اور سمندر میں زہریلہ مادہ چھوڑنے، اوور فشنگ اور طوفانوں کی وجہ سے مچھلی کی تیزی سے قلت پیدا ہو رہی ہے، جس سے نہ صرف کسانوں اور مزدوروں کی خوراک ختم ہورہی ہے لیکن خود ملک، شہر اور ان میں رہنے والے لوگ مچھلی اور زرعی خوراک سے محروم ہو رہے ہیں۔

اگر حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے، پائیدار پالیسیاں تشکیل نہ دیں تو آئندہ کچھ ہی سالوں میں خوراک کا خطرناک حد تک خاتمہ آجائیگا اور لوگ بھوک کے مارے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

(جاری ہے)

گذشتہ روز پاکستان فشر فوک فورم کی طرف سے کراچی کی مقامی ہوٹل میں فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ڈپٹی فوڈ سیکورٹی کمشنر امتیاز گوپانگ، ایڈیشنل سیکریٹری فشریز اینڈ لائیور اسٹاک غلام مجتبیٰ وڈہر، پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی چیئرمین محمد علی شاہ، پائلر کے جوائنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار شاہ، مینیجر آکسفیم شہباز بخاری سمیت ماہی گیر نمائندوں اور مختلف تنظیموں کے رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس موقع پر منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ڈپٹی فوڈ سیکورٹی کمشنر امتیاز گوپانگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیروں کے روزگار کے پیالے سمندر میں بڑھتی گندگی اور مچھلی کے ذخائر کے خاتمے نے خوراک کی خطرناک قلت کو جنم دیا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف ماہی گیروں کو بیروزگار کر کے بھوک و بدحالی میں مبتلا کریگا لیکن ملکی معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور مچھلی کی صورت میں مہیا ہونے والی عام لوگوں کو دستیاب ہونے والی خوراک بھی ختم ہوجائیگی۔

خوراک کی قلت کو ختم کرنے اور خوراک کے تحفظ کیلئے سمندر کو گندگی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کیلئے کراچی سمیت اس ملک کی تمام سیاسی و سماجی تنظیموں، سول سائٹی کے نمائندوں، صحافیوں، وکلا، ادیبوں اور حکومت سمیت ہر باشعور فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مل کر سمندر کو گندگی سے بچانے اور خوراک کے تحفظ کیلئے مشترکہ اقدام اٹھانے ہوں گے۔

پاکستان فشر فوک فورم کے مرکزی چیئرمین محمد علی شاہ نے کہا کہ ترقی اور سائنس کے نام پر ایٹمی ممالک تابکاری کو بڑھا رہے ہیں، خوراک کی تیزے سے قلت پیدا ہو رہی ہے اور ماہی گیر بستیاں طوفانوں کے گھیرے میں ہیں، انہوں نے کہا کہ فطری طور پر بارشوں کو جس موسم میں برسنا چاہئے یا جتنے وقت میں برسنی چاہئے اس کے برعکس چند گھنٹوں میں مہینوں کی بارشیں ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان ساحل سمندر اور دریاؤں کے کناروں پر آباد لوگوں کو ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو عوامی ریاستیں ہوتی ہیں وہ عوام کا درد سمجھ کر اسے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ریاست اور انتظامیہ کے لوگ عوامی تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا سمیت پاکستان حکومت سے خوراک کی قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پھیلنے والی آلودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ خوراک کے تحفظ، مچھلی کے ذخائر اور زراعت میں ہونے والی تباہیوں سے بچنے کیلئے اقدام اٹھائے جائیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری فشریز اینڈ لائیور اسٹاک غلام مجتبیٰ وڈہر نے کہا کہ پاکستان فشر فوک فورم ہر مسئلے پر سنجیدگی سے کام کر رہا ہے اور خوراک کی قلت ہمارے ملک کا اہم ترین مسئلہ ہے،جبکہ خوراک کی قلت کی پیدا ہونے والی تازہ مثال تھر میں قحط سالی کی ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں بچوں سمیت عورتیں اور مرد خوراک کی قلت کاشکار ہوکر فوت ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ فشریز ماہی گیری میں بہتر کیلئے مثبت اقدام اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب دنیا خوراک کی قلت کا شکار ہوجائیگی تب خوراک کا واحد ذریعہ مچھلی ہوگا، اس لئے اوور فشنگ سے پرہیز کیا جائے تاکہ مچھلی کے ذخائر میں اضافہ ہوسکے۔ اس موقع پر پائلر کے جوائنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار شاہ نے کہا کہ اس خطے میں 50 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اور بیماریوں کا شکار بھی وہی لوگ ہیں جو خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہی لوگ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔ جبکہ کراچی شہر میں قائم ہونے والی کئی نئی پالیسیوں کو ہر بنیادی سہولت میسر ہے لیکن کراچی کے دور دراز کے صدیوں سے قائم گوٹھوں کو کوئی سہولت میسر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ریاست ایک ایسی گاڑی ہے جسے دھکا دیکر چلانا پڑتا ہے اور ریاستی گاڑی کو دھکا دینے کیلئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔

آکسفیم کے مینیجر شہباز بخاری نے کہا کہ آکسفیم شروع سے ہی فوڈ سیکورٹی پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر فوڈ سیکورٹی پالیسی تشکیل دینے کیلئے حکومتی اداروں سے رابطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک زرعی ملک ہے اور یہاں ہر دوسرے سال بمپر فصل ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی ہمارا ملک خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ سیمینار سے، آئی یو سی این کے غلام قادر شاہ، ایل ایچ ڈی پی کے اقبال حیدر، زیبسٹ کے ریاض شیخ، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر سعدیہ، جی آر ڈی او کے ڈاکٹر حیدر ملوکانی، پاکستان فشر فوک فورم کے جنرل سیکریٹری سعید بلوچ، وائس چیئرپرسن فاطمہ مجید، مینیجر پروگرام جمیل جونیجو، علی ارسلان، مصطفی گرگیز و دیگر نے خطاب کیا۔