پاکستان میں ذہنی دباؤ، ڈپریشن کے شکار لوگوں کی شرح 34 فیصد ‘ شیزو فرینیا 1 فیصد ، بچوں میں ذہنی پسماندگی کی شرح 5 فیصد ہے،منشیات کے عادی لوگوں کی شرح 66 لاکھ ہے ‘ چرس پینے کے افراد کی شرح 40 لاکھ ‘ افیون اور ہیرون کے عادی افراد 11لاکھ ‘ افیون ملی دوائیوں کے عادی لوگ 17لاکھ ‘ اور نشہ آور گولیوں کے عادی لوگ 16 لاکھ ہیں جو افسوسناک بات ہے ،پشاورمیں منعقدہ سیمینار سے مقررین کاخطاب

جمعرات 9 اکتوبر 2014 22:52

پاکستان میں ذہنی دباؤ، ڈپریشن کے شکار لوگوں کی شرح 34 فیصد ‘ شیزو فرینیا ..

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9اکتوبر۔2014ء) پاکستان میں ذہنی دباو ڈ،پریشن کے شکار لوگوں کی شرح 34 فیصد ‘ شیزو فرینیا 1 فیصد ‘ بچوں ‘ بچوں میں ذہنی پسماندگی کی شرح 5 فیصد ہے ‘ منشیات کے عادی لوگوں کی شرح 66 لاکھ ہے ‘ چرس پینے کے افراد کی شرح 40 لاکھ ‘ افیون اور ہیرون کے عادی افراد گیارہ لاکھ ‘ افیون ملی دوائیوں کے عادی لوگ سترہ لاکھ ‘ اور نشہ آور گولیوں کے عادی لوگ 16 لاکھ ہیں جو کہ افسوسناک بات ہے ۔

ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر پشاور پریس کلب میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سول سوسائٹی اور مختلف مکاتب فکر کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ سیمینار میں پروفیسر ڈاکٹر بشیر ‘ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد سلطان اور ڈاکٹر عمران موجود تھے ۔

(جاری ہے)

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ اس دن کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ حکومتی حلقوں تک ان لوگوں کی آواز پہنچائی جائے جو اپنی آواز آپ نہیں پہنچ پاتے اور وہ ان بیماریوں پر بھی توجہ دے سکیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں عموماً اور تیسری دنیا کے ممالک میں خصوصاً اس حوالے سے سہولیات اور آگاہی کا فقدان ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں ان بیماریوں کے حوالے سے معلومات ہی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کبھی ذہنی مریضوں کو اندھیرے کمروں میں بند کیا جاتا ہے تو کہیں زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے کبھی ان پر تشدد کیا جاتا ہے تو کبھی ایسے ناموں سے پکارا جاتا ہے اور ایسے الفاظ میں ا ن کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان میں علاج کیلئے آنے کی ہمت نہیں رہتی یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ذہنی امراض بھی دیگر امراض کی طرح قابل علاج ہیں اور یہ کہ ذہنی امراض صرف بڑی بیماریوں جیسے شیزو فرینیا کا نام نہیں بلکہ ذہنی پریشان ‘ ڈپریشن ‘ گھبراہٹ اور بے چینی ‘ بے وجہ خوف ‘ مختلف نشہ آور اشیاء کا استعمال ‘ وہم اور شک آنا‘ غصہ پر قابو نہ پا سکنا ‘ اور اس قسم کی سینکڑوں چھوٹی بڑی بیماریوں کا نام ہے اور ان سب کا علاج ممکن ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مختلف ذہنی امراض کی شرح کچھ یوں ہے ذہنی دباو ڈپریشن کے شکار لوگوں کی شرح 34 فیصد ‘ شیزو فرینیا 1 فیصد ‘ بچوں م یں مختلف ذہنی امراض کی شرح دس سے پندرہ فیصد ‘ بچوں میں ذہنی پسماندگی کی شرح 5 فیصد ہے ‘ منشیات کے عادی لوگوں کی شرح 66 لاکھ ہے ‘ چرس پینے کے افراد کی شرح 40 لاکھ ‘ افیون اور ہیرون کے عادی افراد گیارہ لاکھ ‘ افیون ملی دوائیوں کے عادی لوگ سترہ لاکھ ‘ اور نشہ آور گولیوں کے عادی لوگ 16 لاکھ ہیں جو کہ افسوسناک بات ہے ۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ان کو نظر انداز کیا جائے تو یہ نہ صرف مریض کی ذاتی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ سارے خاندان اور معاشرے کیلئے مسائل پیدا کرسکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف بیماریوں کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ہمارے ہاں جو تحقیق کی گئی ہے اس کے نتائج کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر صرف ذہنی پریشانی اور ڈپریشن کو بھی دیکھا جائے تو 33 فیصد سے زائد لوگ اس کا شکار ہیں یعنی لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر تیسرا شخص اینگزائٹی یا ڈپریشن کا شکار ہے اور اگر اس کا بروقت علاج نہیں کیا جاتا تو اس شخص کے کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہو تی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ان بیماریوں سے بچے اور بوڑھے بھی محفوظ نہیں ۔ بزرگ لوگوں میں جن کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے بھولنے کی بیماری یعنی ڈیمنٹیا کی شرح پانچ فیصد تک ہے اور عمر کے ساتھ اس کے امکانات مزید بڑھتے ہیں ان سب بیماریوں سے نمٹنے کیلئے ماہرین امراض نفسیات کی تعداد انتہائی کم ہے اور پورے پاکستان میں صرف 400 سائیکاٹرسٹ ہیں ہسپتالوں میں موجود سہولیات بھی ایسے مریضوں کیلئے انتہائی کم ہیں اگر ان سب پر بر وقت توجہ نہ دی گئی تو اس کے نتائج ایک ذہنی طور پر پسماندہ اور بیمار قوم کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں ۔

متعلقہ عنوان :