جمائما خان شام کے بچوں کے لئے سرگرم

ہفتہ 11 اکتوبر 2014 17:19

جمائما خان شام کے بچوں کے لئے سرگرم

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11اکتوبر 2014ء) جمائما خان کے دو بیٹے 15 سالہ قاسم اور 17 سالہ سلمان عسیٰ دنیا کے ان بچوں میں سے ایک ہین جنہین زندگی کی بیشتر نعمتیں میسر ہیں۔ ان کے بچپن سے لے کر جوانی تک اور پھر کیریئر بنانے تک کا سفر نہایت ہی پرتعیش ہوگا اس لئے کہ ہر جگہ ہر مرحلے پر ان کے والدین کے تعلقات اور واقفیت کام آئے گی اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم اربوں کی جائیداد تو کافی ہوگی کہ وہ ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔

دلچسپ اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ جمائما خان اپنے ان بچوں کے علاوہ ان بچوں کو بھی دیکھتی ہیں جو زندگی کی نعمتوں سے محروم ہیں۔ جمائما خان یونیسف برطانوی ایمبیسیڈر کے طور پر دنیا بھر کے ان بچوں کے مسائل کا جائزہ لیتی ہیں جو مختلف حوالوں سے محرومیوں کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

وہ یہ کام گزشتہ 15 برسوں سے کررہی ہیں۔ جمائما خان اپنے تجربات کی روشنی میں بتاتی ہیں کہ 13 سال قبل وہ پاکستان کے ایک کیمپ میں اشیائے خوردنی اور دیگر تحائف تقسیم کررہی تھی تو ان کی ملاقات ایک 7 سالہ بچے سے ہوئی جس ان کے ؓڑے بیٹے سے بڑا ہی ہوگا۔

اس لمحہ جمائما خان نے اپنے بیٹے اور اس 7 سالہ بچے کے مابین موازنہ کیا تو وہ کانپ اٹھیں کہ ایسا کوئی مازنہ بنتا ہی نہیں۔ وہ 7 سالہ بچہ 25 کلو کے پتھر اپنی پیٹھ پر لاد کر لارہا تھا تو میں نے اسے کہا کہ آپ اپنے کاندان کے کسی دوسرے فرد کی مدد کیوں نہیں لے لیتے جس پر اس نے بتایا کہ ”میں ہی اپنے کاندان کا سربراہ ہوں اور میرے چار چھوٹے بہن بھائی ہیں جن کی پرورش و کفالت میری ذمہ داری ہے“ جمائما خان کہتی ہیں کہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے یہ سوچا کہ میرا بیٹا تو اپنے کمرے کا واش روم بھی نہیں سنبھال سکتا اور یہ بچہ ایک پورے خاندان کی کفالت میں کس قدر مگن ہے اور اس کا احساس ذمہ داری اس کے چھوٹے ہونے کے باوجود بڑے ہونے کی دلیل ہے۔

جمائما خان کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا شام کے مہاجرین کے کیمپوں مین نظر آئی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں جو کہ سوڈان کی سرحد پر واقع ہے ایک 17 سالہ نوجوان کو دیکھا جو تمام مصیبتوں کے باوجود اپنے خاندان کے لئے فکر گیر ہے اور جبکہ اسی عمر کا میرا بیٹا سلمان ایسی تمام مشکالت سے دور ایک شاہانہ زندگی بسر کررہا ہے۔ شامی کیمپ میں مقیم 17 سالہ لڑکے کی اولین خواہش سکول جانے کی ہے۔

یہ اکیلا نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں ایسے 65 ملین بچے پائے جاتے ہیں۔ جمائما خان کہتی ہیں کہ جب میں نے یونیسیف کو اس مسئلے کی نشاندہی کروائی تو انتظامیہ نے جواب دیا کہ ہم ایسے بچوں کی کفالت اور تعلیم کی سہولت دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ان کا کسی پرامن جگہ پر رہائش پذیر ہونا ضروری ہے۔ وہ وار ایئر میں کوئی سہولت دینے کے لئے تیار نہیں۔

متعلقہ عنوان :