چاروں صوبوں سے مشاورت کے بعدتعلیم کے حوالے سے نئی پالیسی ترتیب اوربجث میں اضافہ کیاجائے،سینیٹرعبدالقیوم

صوبوں میں تعلیم کی پالیسی بنانے کی صلاحیت نہیں تووفاق ملک بھرکیلئے یکساں تعلیمی نظام نافذکرے،آج کے اساتذہ تعلیم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھارہے ،تعلیم کووفاق کے تحت ہوناچاہئے ،،سراج الحق،الیاس بلور بلیغ الرحمان اور دیگر سینیٹرز کا اظہار خیال اجلاس آج صبح دس بجکر15منٹ پر پھر شروع ہوگا

پیر 13 اپریل 2015 23:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13 اپریل۔2015ء) ایوان بالامیں نواب سیف اللہ مگسی کی جانب سے تعلیم کے معیارکی مجموعی صورتحال کے حوالے سے پیش کردہ تحریک پربحث کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہدحسین سیدنے کہاکہ تعلیم پاکستانی عوام کابنیادی حق ہے ،حکومت کوچاہئے تعلیم کے حصول کیلئے ایمرجنسی نافذکی جائے ،چین اورکیوبانے تعلیم پرتوجہ دی ہے ،جس کی وجہ سے ان ممالک نے ترقی کے منازل طے کئے اورہم نے 67سالوں سے تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں ،تعلیم کے لئے مناسب بحث ہونی چاہئے ،مسلم لیگ ن کے سینیٹرعبدالقیوم نے کہاکہ تعلیم کوکاروبارکادرجہ ملتاجارہاہے ،تھوڑے پیسوں سے زیادہ منافع کارجحان تعلیم کے نظام کوخراب کررہاہے ،چاروں صوبوں کے ساتھ مشاورت کے بعد تعلیم کے حوالے سے نئی پالیسی ترتیب دی جائے اوربجث میں اضافہ کیاجائے ۔

(جاری ہے)

سینیٹرسراج الحق نے کہاکہ پہلی جماعت سے میٹرک تک تعلیم سکول اورمدارس میں یکساں ہونی چاہئے،اس کے بعدبچہ فیصلہ کرے کہ اس کوکس شعبے میں جاناچاہئے ،صوبوں میں تعلیم کی پالیسی بنانے کی صلاحیت نہیں تووفاق ملک بھرکیلئے یکساں تعلیمی نظام نافذکرے۔عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹرالیاس بلورنے کہاکہ موجودہ دورمیں تعلیم کاوہ معیارنہیں جوہمارے دورمیں تھاآج کے اساتذہ تعلیم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھارہے ،یہی وجہ ہے کہ تعلیم کامعیارروزبروزگررہاہے ۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیٹرروبینہ عرفان نے کہاکہ ایجوکیشن کے لئے کوئی پابندی نہیں ،خواتین اورمردکیلئے برابرکے مواقع ہونے چاہئیں ،بلوچستان میں ایسے سکول ہیں جہاں سکول توہیں مگرسکول میں بھیڑبکریاں بندھی ہوئی ہیں ،یہ صرف اساتذہ کی کمزورہے جوتنخواہیں توحکومت سے لیتے ہیں مگراپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ،بلوچستان میں دوردرازعلاقوں میں سکول ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگ اپنی بچیوں کودوردرازبھیجنے کیلئے تیارنہیں ،اس لئے حکومت کوچاہئے کہ تعلیم کے حوالیسے پالیسی ترتیب دے ،مسلم لیگ ن کے سینیٹرعبدالقیوم نے کہاکہ تعلیم کے حوالے سے باتیں توبہت ہوتی ہیں مگراس پرعملدرآمدنہیں ہوتا،تعلیم ایک منافع بخش کاروباربن گیاہے ،تھوڑے پیسے لگاکرزیادہ منافع کمانے کاذریعہ ہے دیہاتوں کے سکولوں کاتوبراحال ہے ،پاکستان کے کچھ علاقے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ،چاروں صوبوں میں تعلیم کامعیارمختلف ہے جوتعلیمی سہولتیں پنجاب میں دستیاب ہیں وہ دیگرصوبوں میں میسرنہیں جوایک ناکامی ہے ،اس حوالے سے ہمیں اپنی پالیسی تبدیل کرناہوگی ،ہمیں تعلیم کے حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ مشاورت کرکے تعلیم کابجٹ بڑھاناہوگا،ٹیکنیکل تعلیم کوبھی اہمیت دیتے ہوئے حل کریں ۔

سینیٹرجمال دین نے کہاکہ تعلیم کے حوالے سے حکومت کی پالیسیاں کمزورہیں ،معاشی بدحالی کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کومدارس میں بھیج دیتے ہیں ،تاکہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کابھی مناسب بندوبست موجودہوتاہے سیاسی رہنمااپنے ووٹرزسپورٹرزکے لئے اپنی عوام کوتعلیم سے محروم رکھتیہیں اپنی سوچ کوبدلناہوگا،بلوچستان میں ایسے ادارے بنانے چاہئیں ایک ڈسٹرکٹ میں دوادارے بنانے چاہئیں جہاں بچوں کوتعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش اورکھانے کابھی انتظام ہوگا۔

سراج الحق نے کہاکہ ہمارے ملک میں پرائیویٹ اداروں نے اردوانگریزی بی کے تمام مضامیں میں ملک میں این جی اوزکی کثیرتعدادموجودہے ،جنہوں نے بنگلہ دیش بنانے میں اہم کرداراداکیاآج تعلیم کی بھاگ دوڑسنبھال رہی ہے ،گوادرکے ایک سکول کادورہ کیاوہاں سکول زمین پرتھے پوچھنے پرمعلوم ہواکہ اس گورنمنٹ کے سکول میں گزشتہ آٹھ سال سے چھت نہیں ،بچے زمین پرپڑھنے پرمجبورہیں ،ہمیں اپنازمانہ یادآتاہے جب نہ چھت ہوتی تھی تونہ کتابیں استادذاتی کاموں پرلگادیتے ،اس ملک میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جوسکول نہیں جاسکتے ،غربت کی وجہ سے لوگ بچوں کوسکول بھیجنے سے قاصرہیں ،ملک میں ایسانظام ہوجس میں ہربچہ سکول جائے ،پہلی جماعت سے میٹرک تک سکول اورمدرسہ کاایک نظام ہوناچاہئے اس کے بعدبچہ خودفیصلہ کرے کہ کس شعبہ میں جاناہے ،صوبوں کے اندرصلاحیت نہیں کہ وہ تعلیم کے حوالے سے پالسی واضح کریں ،اس لئے وفاق کوچاہئے کہ ملک کے لئے ایک نصاب بنایاجائے۔

بحث کوسمیٹتے ہوئے وزیرمملکت میاں بلیغ الرحمن نے کہاکہ تعلیم کے لحاظ سے اگرصوبوں میں مختلف تعلیمی نطام ہوگاتوایساوقت آئے گاکہ صوبے دوسرے صوبے کی تعلیم نہیں مانیں گے،مشترکہ مفادات کونسل میں یہ معاملہ اٹھایاجاچکاہے کہ ایچ ای سی اپنی میعادکے مطابق کام کررہی ہے ،ہرسال یونیورسٹیوں کی تعدادایشیاء کی ٹاپ دس یونیورسٹیوں میں شامل ہوتی ہیں ۔

2002ء میں دوہزارپی ایچ ڈی سکالرتھے اب دس ہزارپی ایچ جی سکالرہوگئے ہیں ،نیشنل ووکیشنل ایجوکیشن اورٹیکنیکل ایجوکیشن بھی کام کررہے ہیں ،مدارس کے نصاب کے حوالے سے کام کررہیے ہیں تمام مدارس بورڈزنے حکومت کی بہت مددکی ،تعلیم کووفاق کے تحت ہوناچاہئے ،ایک کروڑ16لاکھ بچے سکولوں سے باہرہیں ،6.1ملین بچے سکول میں تھے اوراب مزید6لاکھ بچوں کوسکول میں لایاگیانصاب کے حوالے سے تمام سینیٹرزکی رائے کااحترام کرتے ہیں ،نصاب کی تبدیلی میں صوبے نصاب کاتعین کرتے ہیں،حکومت نے آئین میں رہتے ہوئے صوبوں کوتجویزد ی کہ نیشنل نصاب کونسل ترتیب دیاجائے جوکہ نصاب بنانے میں صوبوں کی مددکریں گے ،سندھ کے علاوہ تمام صوبے اکٹھے ہوئے ہیں ،حکومت نے سب صوبوں اورفاٹا،کشمیر،گلگت بلتستان سے مل کرایک مشترکہ کونسل ترتیب دیدی ہے۔

بعد ازاں سینٹ کا اجلاس آج منگل صبح دس بجکر 15منٹ تک ملتوی کردیا گیا ۔

متعلقہ عنوان :