ہمت مرداں ، مدد خدا

چھٹی جماعت فیل مصطفی۔۔ 62 کروڑ کی کمپنی کا مالک، پڑھئیے مصطفی کا ناکامی سے کامیابی تک کا سفر

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 25 جون 2015 14:30

ہمت مرداں ، مدد خدا

کیرالہ (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 25 جون 2015 ء): کہتے ہیں کہ خد ا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو کہ اپنی مدد آپ کرتے ہیں. ناکامی کا منہ دیکھ کر کامیابی کا انتظار کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے البتہ جو با ہمت افراد ناکامی کا شامنا کر کے کامیابی کے لیے ان تھک محنت کرتے ہیں وی ایک نہ ایک دن اسی محنت سے حاصل کیا ہوا میٹھا پھل ضرور کھاتے ہیں. ایسی ہی ایک مثال ہندوستان میں رہنے والے مصطفیٰ کی بھی ہے ، ہندوستانی ریاست کیرالہ کے ایک دور دراز علاقے ویاناد کے ایک ان پڑھ کسان کے گھرانے میں پروان چڑھنے والے مصطفٰی کی بچپن میں بہت زیادہ توقعات نہیں تھیں۔

بزنس ٹوڈے انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مصطفٰی کہتے ہیں کہ ’’میری پرورش ایک دوردراز گاؤں میں ہوئی۔ جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان تھا۔

(جاری ہے)

میں پڑھائی میں بہت کمزور تھا اور چھٹی کلاس میں فیل ہوگیا تھا۔‘‘جو وہ چاہتے تھے، اس کی تکمیل کی راہ میں چھٹی جماعت میں فیل ہوجانا بہت بڑا دھچکا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ اگر وہ پڑھائی نہ کرسکے تو انہیں کھیت میں کام کرنا پڑے گا۔

چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حصولِ تعلیم کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہیے۔اس مرتبہ انہیں کامیابی ملی اور چند سال کے بعد انہوں نے کالی کٹ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک انجینئرنگ کورس میں داخلہ لے لیا۔ان کی پہلی ملازمت بنگلور میں موٹرولا کمپنی میں تھی۔ کچھ وقت کے بعد اس کمپنی نے انہیں ایک طویل مدتی پراجیکٹ کے سلسلے میں برطانیہ بھیج دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’شاید یہ میرا پس منظر ہے یا کچھ اور کہ میں آلوؤں کی خوراک پر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘انہوں نے بتایا کہ ’’گھر سے دوری کی بنا پر میں بیمار پڑگیا، اور پھر وہاں سے خلیج منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘یہاں کیرالہ کے ملباری قوم کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔انہوں نے سٹی بینک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں شمولیت اختیار کرلی، جہاں ریاض اور دبئی سمیت اس خطے کے کئی شہروں میں سات برسوں تک کام کیا۔

تاہم اب بھی ان کا دل ہندوستان میں لگا ہوا تھا، اس لیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنا چاہتےتھے۔ دوسری خواہش اعلیٰ تعلیم کا حصول تھی۔ہندوستان واپس لوٹنے کے بعد مصطفٰے نے بنگلور میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ایم بی اے پروگرام میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔اس کورس کے دوران ان کے ذہن نے ایک اور قلابازی کھائی اور انہوں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

مصطفٰے کے کزن شمس الدین، عبدالناظر، جعفر اور نوشاد بنگلور کے مضافات میں کریانہ کی ایک دکان چلاتے تھے۔ مصطفٰی نے کہا کہ ’’میں نے فیصلہ کیا کہ میں ویک اینڈ پر اور چھٹیوں کے دوران دکان پر بیٹھوں گا۔ ایم بی اے کے بعد میں کہیں بھی ملازمت حاصل کرسکتا ہوں۔ لیکن میں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ یہ دکان میری اپنی ہوگی۔‘‘دکان پر بیٹھنے کے دوران مصطفٰے نے نوٹ کیا کہ خواتین اڈلی اور ڈوسہ (جنوبی ہندوستان کی مشہور ڈشز) بنانے کے لیے بیٹر خرید کر لے جاتی ہیں۔

بیٹر کے ناقص معیار اور بے قاعدہ سپلائی کے باوجود ان کے شیلف خالی ہوجایا کرتے تھے۔اس صورتحال نے انہیں خوراک کی پیکنگ کے کاروبار میں داخل ہونے کا آئیڈیا دیا۔

پھر انہوں نے اس پر اپنی 14 لاکھ روپے کی بچت لگادی۔مصطفٰی کہتے ہیں کہ جنوبی ہندوستان میں خوردہ فروشوں کا یہ کھلا راز ہے کہ کریانہ اسٹورز کی بڑی تعداد ملباری ہی چلاتے ہیں۔

ملباریوں میں اس حوالے سے خاصی مہارت و تجربہ موجود ہے، لیکن ایک کمیونٹی صرف سبزیوں کی دکان چلاسکتی ہے تو دوسری بیکری کی مصنوعات کا تجربہ رکھتی ہے۔ جب مصطفٰی نے اپنے کزنز کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیا تو اس خصوصیت نے ان کی بہت مدد کی۔وہ کہتے ہیں کہ ’’ان میں سے زیادہ تر لوگ معمولی تعلیم یافتہ اور غریب ہیں۔ کرائے بہت زیادہ ہیں، اور منافع بہت کم، لیکن یہ محنت کش عام طور پر خود کو مالک سمجھ کر خوش ہوتے ہیں۔

جب ان کے اسٹورز ترقی کرتے ہیں، وہ ورکروں کو رکھنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، جو عام طور پر ان کے دوست اور رشتے دار ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد بعض ورکرز خود اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں۔‘‘ان کے کزنز ان کی فروتنی سے واقف تھے، چنانچہ انہوں نے مختصر پیمانے پر کاروبار شروع کردیا۔ انہوں نے 5 ہزار کلو چاول خریدا، اور 15 ہزار کلوگرام بیٹر تیار کیا، جسے انہوں نے بطور نمونہ تقسیم کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’کریانہ اسٹورز کے گاہکوں کی رائے ہمارے لیے بہت اہم تھی۔ اس تجربے کے اختتام پر ہم جان گئے کہ بہترین بیٹر کیسے تیار کیا جاتا ہے۔‘‘مصطفٰی نے بتایا کہ مختصر گھرانوں کے اضافے کے ساتھ ہندوستانی خواتین کو ملازمت کے بعد کھانا پکانے کے لیے بہت کم وقت بچتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’اس کے باوجود خواتین اپنے گھرانے کی صحت کا خیال کرتے ہوئے انہیں تازہ خوراک دینا چاہتی ہیں۔

ہمارا مقصد ان کی اس خواہش کی تکمیل تھا، یہی وجہ تھی کہ ہم انہیں پہلے سے تیار کھانوں کی طرف لانا نہیں چاہتے تھے۔

ہمارا مقصد تھا کہ اگر اڈلی پھولی پھولی اور ذائقے دار ہو تو اس کا کریڈٹ ان خواتین کو ہی جانا چاہیے۔‘‘مصطفٰی اور ان کے کزنز نے 2008ء میں 50 مربع فٹ کا کچن اور ایک گرائنڈر کرائے پر حاصل کیا اور بیٹر کی تقسیم ایک اسکوٹر کے ذریعے شروع کردی۔

ناظر پسائی کا کام جبکہ شمس الدین تقسیم کا کام کرتے۔ اور ملباری کریانہ نیٹ ورک نے کم از کم ان کے کاروبار کی ابتداء میں بہت مدد کی۔مصطفٰی کہتے ہیں کہ ابتداء میں ان کا خیال تھا کہ وہ محض ایک سرمایہ کار رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بعد میں مجھے خیال آیا کہ اگر ہم اس کاروبار کو بڑے پیمانے پر بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا ایک تنظیمی ڈھانچہ تیار کرنا ہوگا، اور اس کو پیشہ ورانہ انداز میں چلانا ہوگا۔

چنانچہ اس وقت میں نے اس کاروبار میں کل وقتی طور پر شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کمپنی نے باقاعدہ طور پر کام کرنا شروع کردیا۔‘‘انہوں نے بتایا کہ اس کا انہوں نے ایک معیار مقرر کیا۔ انہوں نے پریزرٹیوز اور ایڈیٹیوز کو بیٹر میں شامل نہیں کیااور کم سوڈیم کا نمک اور ریورس اوسموس کے طریقہ کار سے صاف کیا گیا پانی کا استعمال کیا۔مصطفٰی کہتے ہیں کہ ’’ہماری پروڈکٹ 100 فیصد قدرتی اجزاء پر مشتمل ہے۔

ہم نے کیمیکلز یا پریزرٹیوز کا استعمال نہیں کیا۔ یہ گھر میں تیار کی گئی پروڈکٹ کی مانند ہے۔‘‘یہ کمپنی غیررسمی طور پر بیسٹ فوڈز پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے جانی جاتی تھی، بعد میں کاپی رائٹ کے مسائل نے انہیں اس کا نام تبدیل کرکے آئی ڈی اسپیشل فوڈز پرائیوٹ لمیٹڈ رکھنے پر مجبور کردیا۔یہ پانچوں بھائی 2010ء تک 2 ہزار کلوگرام بیٹر روزانہ فروخت کرنے لگ گئے تھے۔

ان کی سالانہ آمدنی چار کروڑ کی سطح کو چھو رہی تھی۔اگرچہ ڈسٹری بیوشن بنگلور تک محدود تھی، اس وقت بھی اس کمپنی میں چالیس افراد ملازم تھے۔ اس مرحلے پر چینائی تک اس کو توسیع دینے کی کوششیں ناکام رہیں۔مصطفٰی نے بتایا کہ ’’ہم نے کئی سبق سیکھے۔ پہلا تو یہ کہ یہ ایک نقل و حمل کا کاروبار ہے، اس لیے کہ فوڈ بزنس ہونے کی وجہ سے اس پروڈکٹ کی شیلف لائف بہت مختصر ہوتی ہے۔

چینائی مارکیٹ کو توڑنے کی ہماری کوشش کی ناکامی کی ایک وجہ ہمارا ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشننگ کا ناقص معیار تھا۔ دیگر چیلنجز بھی بڑھتے گئے۔ ان میں سے ایک ویسٹیج یا ضیاع تھا۔روزانہ تقسیم کے کاروبار کی طرح انونٹری کا مطلب نقصان ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں زیادہ سے زیادہ ویسٹیج25 فیصد تھا۔انہوں نے بتایا کہ یہاں آئی ٹی کے تجربے نے میری مدد کی۔

انہوں نے حقیقی وقت کی بنیاد پر ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایک ایپلیکیشن تیار کی، اور ویسٹیج کو 1.6 فیصد تک لے آئے۔ اس کے علاوہ ملباری پروٹاز کی فروخت کا ارادہ جس کی شیلف لائف تین دن کی ہوتی ہے، ترک کردیا۔آج 50 ہزار کلوگرام بیٹر کے علاوہ یہ کمپنی ایک دن میں 40 ہزار چپاتیاں، 2 لاکھ پروٹاز اور 2 ہزار پیکٹس ٹماٹر اور دھنیے کی چٹنی (ہر پیکٹ 200 گرام کا ہوتا ہے) فروخت کررہی ہے۔

آئی ڈی کمپنی کی 15-2014ء میں 62 کروڑ روپے کی آمدنی کا 40 فیصد حصہ پروٹاز کا ہے۔آئی ڈی کمپنی آٹھ شہروں بینگلور، میسور، مینگلور، چینائی، ممبئی، حیدرآباد، پونے اور شارجہ میں اپنی مصنوعات فروخت کررہی ہے۔ڈیلیوری کی 200 گاڑیاں ہندوستان کے سات شہروں میں روزانہ 10 ہزار سے زیادہ اسٹورز تک آئی ڈی کی مصنوعات لے کر جاتی ہیں۔ آئی ڈی میں اس وقت 650 افراد ملازم ہیں۔

مصطفٰی کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی پہلے دن سے ہی منافع بخش ہے، اور ایک دن میں فروخت ہونے والے بیٹر کی مقدار سے دس لاکھ اڈلی تیار کی جاسکتی ہے۔اس توسیع سے منافع کا زیادہ تر حصہ واپس چلا گیا۔ وہ تیزی سے ترقی کرنے کے لیے اُدھار لے سکتے تھے، لیکن مصطفٰی نے کہا کہ مذہبی اصولوں نے انہیں قرضہ لینے سے روک دیا۔ہندوستانی ریاست میں احمدآباد کی مارکیٹ کے لیے تازہ سانبھر، ناریل چٹنی اور ڈھوکلہ کی تیاری کا ارادہ ہے۔لگن کے ساتھ کام کرنے والے مصطفٰی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بطور ایک ایسے شخص کے، جو چھٹی جماعت میں فیل ہوگیا ہو، میں نہیں سمجھتاکہ میں بیٹر فروخت کرکے کوئی برا کام کررہا ہوں۔‘‘