پاناما لیکس :وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروادیا- ایسا لگتا ہے بارہ ملین درہم دو عشروں تک خرچ نہیں ہوئے، گلف اسٹیل کی فروخت کی رقم وزیر اعظم کے بینک اکاونٹ میں رہی-سپریم کورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 5 جنوری 2017 13:51

پاناما لیکس :وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروادیا- ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05جنوری۔2017ء) پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نئے لارجر بینچ دوسرے روز بھی جاری رکھی جبکہ وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے بینچ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات جمع کروا دیئے ہیں۔سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جمع کروائے گئے، جواب میں وزیراعظم کی اب تک کی سیاسی تعیناتیوں سے متعلق تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

جن میں بتایا گیا ہے کہ نوازشریف 25 اپریل 1981 تا 28 فروری 1985 وزیرخزانہ پنجاب رہے‘19 اپریل 1985 تا 30 مئی 1988 وزیراعلیٰ پنجاب رہے‘31 مئی 1988 سے 2 دسمبر 1988 نگران وزیراعلیٰ پنجاب رہے‘2 دسمبر 1988 تا 6 اگست 1990 وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہے‘6 نومبر 1990 تا 18 اپریل 1993 پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے‘18 جولائی 1993 اسمبلی سے استعفی دیا‘19 اکتوبر 1993 تا 5 نومبر 1996 اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں‘17 فروری 1997 تا 12 اکتوبر 1999 دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے‘عدالت میں جمع کرائے گئے جواب کے مطابق 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لاءلگائے جانے کے بعد وزیراعظم کو 10 دسمبر 1999 کو جلاوطن کردیا گیا۔

(جاری ہے)

جس کے بعد نواز شریف 26 نومبر 2007 کو وطن واپس لوٹے اور 5 اپریل 2013 سے وہ وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہیں۔نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے جمع کرائے جانے والے اس جواب کی کاپیاں درخواست گزاروں کے وکلاءکو بھی فراہم کی گئیں۔جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے قطری خط پر دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔ سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ سرمایہ کاری کے بارے میں والد کچھ اور اولاد کچھ اور کہتی رہی، قطر میں سرمایہ کاری سے لگتا ہے نئی جائیدادیں خریدی گئیں، قطری خط مکمل طور پر فراڈ ہے، 2016 میں قطری شہزادہ 1980 کی یاد تازہ کر رہا ہے، وزیراعظم کے کسی بیان میں قطری خط کا کوئی ذکر نہیں، ساری جائیداد دادا سے ایک پوتے کو منتقل نہیں ہو سکتی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات نوٹ کرلی ہے کہ رقم منتقلی کا ریکارڈ نہیں لیکن آپ کویہ بھی بتانا ہوگا کہ سرمایہ کاری قطر اور جائیداد لندن میں کیسی بنی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ ایسا لگتا ہے بارہ ملین درہم دو عشروں تک خرچ نہیں ہوئے، گلف اسٹیل کی فروخت کی رقم وزیر اعظم کے بینک اکاو¿نٹ میں رہی، اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمیں مشکل ہو گی۔

جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ قطری شہزادے کا بیان سنی سنائی باتیں ہیں تو اسے بطور ثبوت کیوں استعمال کر رہے ہیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کا خط ہماری نہیں وزیر اعظم کی پیش کردہ دستاویز ہے، خط کو کارروائی سے نکال پھینکا جائے۔ نعیم بخاری کی استدعا پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو کیسے نکال پھینکیں کیونکہ وزیر اعظم کے بچوں کا انحصار اس پر ہے، یہ خط وزیراعظم کے بچوں کی تائید میں لکھا گیا ہے، اگر خط نکال دیا تو بچوں کے موقف کی حیثیت کیاہوگی، نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادوں کو نکال دیں تو ساری جائیداد شریف فیملی کی ہے، فلیٹ خریدتے وقت فلیٹ شریف فیملی کے تھے۔ بچوں کی جانب سے دیا گیا موقف وزیر اعظم کے بیان کے متضاد ہے۔