غلام نبی راہی نے براہوئی ڈرامہ نویسی کی تاریخ میں اولین کردار ادا کیا، نامور دانشور ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی

بدھ 22 فروری 2017 23:13

کوئٹہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 فروری2017ء) ڈرامہ کی تاریخ میں بلوچستان کے جن اہم ڈرامہ نویسوں کا نام نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتا ہے ان میں غلام نبی راہی ایک قابل قدر اور تخلیقی شخصیت کے مالک تھے۔ راہی جی نے خاص طور پر براہوئی ڈرامہ نویسی کی تاریخ میں اولین کردار ادا کیا۔ ان کے ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے ڈرامے کے کردار زبان زد عام ہوئے اور ان کے ڈراموں میں معاشرتی شعور کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا، ان کی جدائی سے بلوچستان میں ڈرامہ کے تخلیقی تسلسل کو خاصا نقصان پہنچا اور ان کا خلا پر ہونا ناممکن لگتا ہے۔

راہی میں مطالعے کے ساتھ ساتھ عمیق مشاہدہ کی صلاحیت تھی۔ وہ ہمارے ارد گرد کی زندگی کو بھرپور انداز میں اپنے ڈارموں کا موضوع بناتے تھے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار نامور دانشور ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی نے براہوئی ادبی سوسائٹی کے زیراہتمام غلام نبی راہی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں اپنے اظہار خیال کے دوران کیا۔ تقریب میں وحید زہیر، اے ڈی بلوچ، حنیف مزاج اور افضل مراد نے غلام نبی راہی کی کی شخصیت، ادبی، علمی خدمات اور ڈراموں کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا اور راہی کی علمی، ادبی خدمات کا حوالہ دیا۔

وحیدزہیر نے کہا کہ آج جس حد تک ڈرامہ کی صنف کو سمجھ یا برت رہے ہیں یہ راہی کی رہنمائی اور دوستی کی مرہون منت ہے۔ راہی کو محبتیں بانٹنے کا ہنر آتا تھا۔ وہ باتوں باتوں میں ہمیں ڈرامے کے موضوع، کردار نگاری اور منظر نگاری کی باریکیاں سمجھاتے تھے۔ ان کا قلم معاشرتی مسائل پر بھرپور انداز میں طنز کرتا ہے۔ حنیف مزاج نے کہا کہ اگرچہ میری ملاقات غلام نبی راہی سے بالمشافہ کبھی نہیں ہوئی تاہم ان کی تحریریں پڑھنے اور صداکاری ریڈیو کے ذریعے سننے کو ملی تو ایک گہرا تاثر ذہن پر چھوڑ گئے۔

خاص کر ان کا ریڈیو پر نشر ہونے والا پروگرام شاہ بیگ وتاخ بھلائے نہیں بھولتا۔ اس میں ملک شاہ بیت کے کردار لازوال نظرآتے ہیں۔ وہ ہمارے روزمرہ کے امور کو بخوبی بیان کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں موجود خامیوں کے ساتھ خوبیوں کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اے ڈی بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے غلام نبی راہی کو کردار نگاری کا بادشاہ قراردیا۔

خصوصاً بلوان نا برام، زراب، پیداگیر کے لافانی کردار ریڈیو پروگراموں میں شاہ بیگ وتاخ کے لازوال کردار اتنے برسوں بعد بھی ہمارے دلوں اور ذہنوں میں نقش ہیں۔ یہ کردار ہماری ثقافت اور معاشرت کے نیم قبائلی، نیم شہری اور نظام کے درمیان کرداروں کی سوچ، ذہنی سطح اور مسائل کو باریک بینی سے سامنے لاتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ افضل مراد نے غلام نبی راہی کی شخصیت اور ان کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ راہی ایک صاحب مطالعہ اور دانشور شخص تھے ان کے اندر ایک کامیاب صداکار بھی موجود تھا۔

وہ ریڈیو ڈراموں میں اپنے کردار کی ادائیگی میں کمال دکھاتے تھے۔ براہوئی زبان کے اولین ڈرامہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد ہمیں راہی کو یونیورسٹی کے کورس کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ راہی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ نوجوان لکھنے والوں کی بڑی حد تک حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ریڈیو میں ان کی حوصلہ افزائی اور تربیت کے صلے میں آج براہوئی زبان کو نامور اہل قلم ملے ہیں جن میں ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، وحید زہیر، تاج رئیسانی، خداداد گل، عارف ضیاء، افضل مراد اور دیگر کئی ادیب، فنکار اور صداکار شامل ہیں۔

تقریب میں ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی نے غلام نبی راہی کی نایاب تحریروں کو جمع کرنے اور ان کی اشاعت ممکن بانے کے لئے براہوئی ادبی سوسائٹی کے ذمہ داران پر زور دیا۔

متعلقہ عنوان :