ایرانی صدارتی انتخابات میں سنی مسلمانوں کو حق دلوانے کا مطالبہ

ایرانی آئین وحی الہٰی نہیں کہ اسے بدلا نہ جائے،حقوق نہ دیئے گئے تو خطرناک نتائج برآمد ہوں گے،سنی عالم دین

منگل 25 اپریل 2017 11:56

ایرانی صدارتی انتخابات میں سنی مسلمانوں کو حق دلوانے کا مطالبہ
تہران(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اپریل2017ء)ایران میں اہل سنت والجماعت مسلک کے نمائندہ عالم دین علامہ عبدالحمید اسماعیل زئی نے سنی مسلمانوں کو بھی صدراتی انتخابات میں حصہ لینے کا حق دلوانے کا مطالبہ کیا ہے اورکہاہے کہ ملکی دستور کی دفعہ 35 اور 115 میں جوہری تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ اہل سنت کے امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔

میڈیارپورٹس کے مطابق علامہ اسماعیل زئی کا کہناتھا کہ دستور کی دفعہ پینتیس اور ایک سو پندرہ میں اہل تشیع کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔ ملک میں اثنا عشری شیعہ مسلک کو غلبہ دینے کے بعد دوسرے مسالک پر سیاسی عہدوں پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔صوبہ بلوچستان کے صدر مقام زاہدان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولوی عبدالحمید اسماعیل زئی نے کہا کہ ایرانی رجیم کو چند دستوری دفعات کا سیاسی فایدہ حاصل ہے اور وہ ان دفعات کی آڑ میں اہل سنت کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

دستور کی انہی دفعات کے تحت اہل سنت مسلک کے کسی شخص کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا حق نہیں۔ایرانی بلوچ سنی مذہبی رہ نما کا کہنا تھا کہ ایک طرف ریاست یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتی مگر دوسری طرف قانون میں اثناء عشری شیعہ مسلک کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صدر مملکت تک تمام اعلیٰ عہدے اہل تشیع کے لیے مختص ہیں اہل سنت کو قانونی پیچیدگیوں میں بند کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت حکیمانہ، متوازن اور مناسب فیصلہ ہو گا۔ مگر اس کے لیے دستور میں ضروری ترامیم ناگزیر ہیں۔ دستور وحی الہٰی نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے۔ایران کے دستور میں صدر مملکت کے لیے شرائط بیان کی گئی ہیں۔ دفعہ 35 میں بیان کردہ شرائط کے تحت صدارتی امیدوار کو مذہبی شخصیت ہونا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ایسا شخص جو اسلامی جمہوریہ ایران میں اہل تشیع کو سرکاری مذہب مانتا ہو اور مسلک شیعہ ہو۔دفعہ 107 میں واضح کیا گیا ہے کہ اہل سنت سمیت کسی بھی دوسرے مذہب یا مسلک کے پیروکاروں کو مرشد اعلیٰ، دستوری کونسل کا رکن اور صدر بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان عہدوں اور اس کے علاوہ دیگر اعلیٰ عہدوں کے لیے امامیہ شیعہ ہونا ضروری ہے۔ دفعہ 61 میں کہا گیا ہے کہ کوئی سنی مسلمان عدالت کا جج نہیں بن سکتا۔

دفعہ 115 کی شق 5 میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت مذہبا شیعہ ہو گا اور وہ اہل تشیع کو ایران کے سرکاری مذہب کے طور پر مانتا ہو۔ دفعہ 121 میں کہا گیا ہے کہ ریاست کا کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار منصب سنبھالتے وقت شیعہ مذہب کی وفاداری اور دفاع کے تحفظ کا اقرار کرے گا۔ایرانی کی دفعہ 12 اور 13 میں مذہبی آزادیوں پر بھی قدغن عاید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ شیعہ مسلک کے علاوہ کسی دوسرے مسلک کے پیروکار اپنے مذہب یا مسلک کی ترویج واشاعت نہیں کرسکتے۔

اس طرح سنی مسلمانوں کو ایران میں اجتماعی عبادت کے لیے مساجد تعمیر کرنے کی بھی اجازت نہیں۔دستور کی دفعہ دو میں کہا گیا ہے کہ ایران کا سیاسی نظام امامت، قیادت اور اجتہاد کے جاری عقیدے کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ ملک میں اسلامی فقہی امور میں اجتہاد کا حق صرف شیعہ علماء کو حاصل ہو گا۔ سنی مسلک کے مسلمانوں کو یہ حق بھی نہیں دیا گیا۔

ایران کی کل آبادی 80 ملین نفوس پر مشتمل ہے جس میں 15 سے 17 ملین آبادی اہل سنت مسلک کی نمائندگی کرتی ہے جو کہ کل آبادی کا 20 سے 25 فی صد ہے۔ یہ غیر سرکاری اعداد وشمار ہیں، جب کہ سرکاری سطح پر دوسرے مسالک اور قومیتوں کی اصل تعداد ظاہر نہیں کی جاتی۔مغربی ضلع کردستان، جنوب مشرق میں بلوچستان، شمال مشرق میں چولستان، خلیج عربی کے ساحل پر واقع علاقے آذر بائیجان، عربستان، جنوب مغرب میں الاھواز، شمال مشرق میں خراسان، جیلان اور شمال میں طالش شہر اہل سنت مسلک کے لوگوں کے اکثریتی علاقے قرار دیے جاتے ہیں۔