اس بات کا بیٹا ہوں جس نے کبھی بے گناہوں کے قتل کی ترغیب نہیں دی ،نواب خیر بخش مری

نواز حکومت اور اس کے آلہ کاروطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیںجنگیز مری کا طرز سیاست علیحدہ ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں وطن واپسی کا فیصلہ اپنے لوگوں کے اصرار پر کیا ہے، جلا وطن قوم پرست رہنما

پیر 12 جون 2017 23:37

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جون2017ء) نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے جلا وطن بلوچ قوم پرست رہنماء نوابزادہ گزین مری نے کہا ہے کہ میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس نے کبھی بھی بے گناہوںکے قتل کی ترغیب نہیں دی بلکہ بلوچستان میں بیٹھ کربلوچ عوام کے حقوق کی آواز بلند کی نواب خیر بخش مری اور حیر بیار مری کے راستے سال2008ء میں ہی الگ ہو چکے تھے ایسے لوگوں کے نظریات کا حامی نہیں جو آزادی کے نام پر بے گناہ بلوچوں کو آگ میں جھونک کر خود بیرون ملک بیٹھ کر اپنے لوگوں سے کٹ کر زندگی گزاریں قوم کا دکھ درد کا واویلہ کرنے والے اگر اتنے ہی سنجیدہ تھے تو بلوچستان میں ہی بیٹھ کر حقوق کی آواز کو بلند کرتے وطن واپس آکر عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کروں گا نواز حکومت اور اس کے آلہ کاروطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیںجنگیز مری کا طرز سیاست علیحدہ ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں وطن واپسی کا فیصلہ اپنے لوگوں کے اصرار پر کیا ہے سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ مشاورت کے بعد کرونگاان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن ‘‘سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوںنے کہا کہ 18 سال بعد اپنی جلا وطنی ختم کر کے واپس آرہا ہوں سال 1999ء میں جسٹس نواز مری کے قتل کے بعد میرے خلاف بھی جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تھا اس دوران اپنے والد سے رابطہ کیا اور ان کے کہنے پر ہی ملک چھوڑ کر جلا وطنی کی زندگی گزاری کئی مرتبہ وطن واپس آنے کا ارادہ کیا مگر والد کے منع کرنے پر نہ آسکا حکمرانوں کی جانب سے والد کی حیات کے دوران وطن واپسی پر اصرار کیا جاتا رہا تاہم والد کی وفات کے بعد جب بھی وطن واپس آنے کا ارادہ کیا نواز حکومت اور اس کے آلہ کاروں نے وطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکائے لیکن واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حربوں سے نہ تو خوف زدہ ہو اور نہ ہی پریشان میرے خلاف جو بھی مقدمات ہیں ان کا عدالتوں میں سامنا کروں گا انہوں نے کہا کہ بڑے بھائی جنگیز مری سے کوئی سروکار نہیں ان کا نظریہ اور سیاست سب کچھ الگ ہے جس سے میرا کوئی تعلق نہیںانہیں جس طرح سے نواب بنایا گیایہ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے میں اپنے والد نواب خیر بخش مری کا پیروکار ہو ں جنہوں نے نہ ہی منافقت کی اور نہ ہی بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی نواب خیر بخش مری نے اغواء برائے تاوان نہتوں پر وار کرنے اور طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو نشانہ بنانے والوں سے کنارہ کشی اختیار کی وہ نیب کے دور میں بھی اپنے نظریات پر ڈٹے رہے انہوں نے کبھی کسی آبادکار،حجام ،ریڑھی بان،مزدور کو قتل کرنے والوں کی حمایت نہیں کی میں بھی اپنے والد کے انہی نظریات کا حامی ہوں انہوں نے کہا کہ حقوق لینے کے دعویدار طاقتور سے لڑنے کی بجائے اس نہتے کو نشانہ بناتے ہیں جو اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کما نے کی جدوجہد کر رہا ہے کچھ بھٹکے ہوئے لوگ نواب خیر بخش مری کی سیاست سے ہٹ کربلوچ قوم سے متعلق منفی تاثر عالمی دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو بلوچ قوم کی خدمت اور نواب خیر بخش مری کے افکار کے منافی ہے انہوں نے کہا کہ بی ایل اے اگر زیادتی کرتی رہی تو ریاستی اداروں نے بھی کوئی کمی نہ کی انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواب خیر بخش مری اور حیر بیار مری کے راستے 2008ء میں ہی علیحدہ ہو گئے تھے نواب خیر بخش مری نے بلوچستان میں رہ کر ہی بلوچ قوم کے حقوق کی بات کی اور آخر دم تک اپنی سرزمین پر رہتے ہوئے ہی جدوجہد کو جاری رکھا ان لوگوں کے نظریات کا کبھی بھی حامی نہیں رہا جو بیرون ملک بیٹھ کرآزادی کے نام پر بے گناہ بلوچوں کو مروارہے ہیں اگر وہ قوم کا دکھ اور درد اور محسوس کرتے ہیں تو یہاں بیٹھ کر آواز بلند کریں سی پیک اور گوادر منصوبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک مقامی لوگوں کو اسٹیک ہولڈر نہیں بنایا جاتا اس وقت تک بلوچ کسی بھی ترقی کا حصہ نہیں بن سکتا میں جس سرزمین پر بیٹھا ہوں وہاں پر مقامی لوگوں کے حقوق کا جس طرح سے خیال رکھا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی یہاں پر نہ تو دہشت گردی ہے اور نہ ہی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے بلکہ عام آدمی بھی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو رہا ہے گوادر اور بلوچستان کے عوام کو جب تک براہ راست ترقی میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا اس وقت تک تمام میگا پروجیکٹس بے سود ہونگے انہوں نے کہا کہ تبدیلی صرف نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے سے آتی ہے بلوچستان کے حکمران عوام کے منتخب کردہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لائے ہوئے لوگ ہیں انہیں بلوچستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں یہ صرف اور صرف اپنے مفادات اور ان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں جو ان کو لاتے ہیں جب تک بلوچستان میں شفاف انتخابات کے ذریعے لوگوں کو منتخب نہیں کیا جاتااس وقت تک مسائل حل نہیں ہونگے بلوچستان میں ماروائے آئین و قانون لوگوں کا قتل اور اغواء نے مسائل کو مزید گھمبیر بنادیا اگر ایک طرف علیحدگی پسندوںکی جانب سے ظلم کئے گئے تو ریاستی مظالم بھی کم نہ تھے جس نے آج حالات کو اس نہج تک پہنچایاہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ آج بھی بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے طاقت اور بندوق کے ذریعے مسئلے بگڑتے ہیں بلوچ اگر اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو بیٹھ کر یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اگر نیت صاف ہو تو پہلے دن سے بلوچ کو عزت دار ملتی تو آج حالات اس نہج پر نہ پہنچتے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھپوں کے ذریعے بلوچستان میں حکمران لانے کی ضرورت محسوس ہوتی انہوں نے کہا کہ میرے خلاف بننے والے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں اگر کوئی جے آئی ٹی بنتی تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن میں کسی سے کوئی ریلیف نہیں مانگتا اور نہ ہی کسی قوت کے اشارے پر کام کرنے کیلئے تیار ہوں میرے مستقبل کا فیصلہ میری قوم کرے گی آج تک بیرون ملک بیٹھ کر کبھی کسی کیلئے کرائے کے قاتل کے طورپر کام نہیں کیا اور نہ ہی بیرون ملک سے کوئی فنڈنگ لی اب بھی اگر بلوچ کی بات کرونگا تو اپنی سرزمین پر بیٹھ کروں گا بیرونی قوتوں کے اشارے پر اپنے لوگوں کو مارنے کا کام نہیں کرسکتا ایسی طرز سیاست کا حامی نہیں ہوں کہ بیرون ملک بیٹھ کر بلوچستان سے بھتے وصول کروں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرو اور جن کے ذریعے قتل کرواتا ان کے مرنے پر صرف اتنا بیان دیتا کہ یہ سرزمین کی آزادی کیلئے شہید ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ موقع پرستی اور منفی سیاست کی بجائے حق و سچ کی سیاست کاحامی ہوں بلوچستان مری‘ بگٹی‘ مگسی ‘جمالی یا مینگل کی میراث نہیں بلکہ یہ تمام قوموں کا مشترکہ صوبہ ہے لہٰذا اکیلا کچھ بھی نہیں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا کس سیاسی جماعت کا حصہ بنوں گا یہ بلوچستان کی سرزمین پر بیٹھ کر اپنے لوگوں کی مشاورت سے فیصلہ کرونگا۔

متعلقہ عنوان :