پانامالیکس تحقیقات- جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کو پیش کردی- عملدرآمد بنچ نے سماعت کے دوران حسین نواز کی تصویر لیک کے معاملے پر درخواست نمٹادی - ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم-سماعت17جولائی تک ملتوی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 10 جولائی 2017 12:38

پانامالیکس تحقیقات- جے آئی ٹی نے حتمی رپورٹ سپریم کورٹ کے عملدرآمد ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 جولائی۔2017ء) پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کی جس کے بعد عدالت نے سماعت اگلے پیر یعنی 17 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔عدالت نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ رپورٹ کی کاپی رجسٹرار آفس سے حاصل کر سکتے ہیں۔سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے فریقین سے یہ بھی کہا کہ اگلی پیشی پر وہ دلائل نہ پیش کیے جائیں جو اب تک دیئے جا چکے ہیں۔

عدالت نے جے آئی ٹی کی درخواست پر رپورٹ کے حصہ نمبر 10 کو عام نہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔عدالی نے یہ بھی حکم دیا کہ جے آئی ٹی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو تاحکم ثانی سکیورٹی فراہم کی جائے۔قبل ازیںجے آئی ٹی رپورٹ کے 3سربمہر کارٹن سپریم کورٹ لائے گئے جن پر ایویڈنس”ثبوت“ تحریر تھا۔

(جاری ہے)

عملدرآمد بنچ نے سماعت کے دوران حسین نواز کی تصویر لیک کے معاملے پر درخواست نمٹادی ہے۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام سامنے آنا چاہئے، لیکن اس پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں اگر حکومت کو تصویر لیک پر کمیشن بنانے میں دلچسپی ہے تو بنالے۔ ایس ای سی پی ریکارڈ میں ردوبدل کے معاملے پرسپریم کورٹ نے ظفر حجازی کے خلاف مقدمے درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ مقدمے کا اندراج آج ہی کیا جائے ۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ظفر حجازی نے ماتحت افسران پر دباﺅ ڈالا۔سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کو ذمہ دار قرار دیا ہے، ایف آئی ایف نے ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔قبل ازیں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں واجد ضیاءکی زیر صدارت جے آئی ٹی کا اجلاس ہوا، جس میں رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی یہ چوتھی اور حتمی رپورٹ ہے۔ پہلی پیش رفت رپورٹ 22مئی ، دوسری 7جون اور تیسری 22جون کوجسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہ میںجسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی عملدرآمد بینچ کو پیش کی تھی۔ایس ایس پی سیکورٹی جمیل ہاشمی کا کہنا ہے کہ غیرمتعلقہ افراد کو سپریم کورٹ یا جوڈیشل اکیڈمی میں جانے کی اجازت نہیں ہے،دونوں مقامات کی سیکورٹی بڑھادی گئی ہے۔

عام طور پر 100کے قریب اہلکار سپریم کورٹ کی سیکورٹی پر تعینات ہوتے ہیں لیکن آج 500اہلکار سیکورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پاناما لیکس تحقیقات کے لیے بنائے گئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو 13 سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ٹیم کو 60 دنوں میں تحقیقات مکمل کر نے کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں، حسین نواز اور حسن نواز کو جے آئی ٹی کے طلب کرنے کی صورت میں جانے کا حکم بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ جے آئی ٹی کے پاس یہ بھی اختیارات تھے کہ تفتیش کے سلسلے میں وہ کسی بھی متعلقہ شخص کو سوالات کے لیے طلب کر سکتے تھے۔ملک کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو جے آئی ٹی کے سامنے 15 جون کو طلب کیا گیا جہاں ان سے تقریباً تین گھنٹے تک سوالات کیے گئے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے 13 سوالات میں سے بیشتر سوالات میاں نواز شریف کے جائیداد اور ان کی تفصیلات کے بارے تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف سے اسی حوالے سے تحقیقات کیں جس میں قطری شہزادے کے خط کی حقیقت، بیٹے حسین نواز کی جانب سے دیے گئے اربوں روپوں کے تحائف، گلف سٹیل ملز کے قیام کے لیے رقم کی تفصیل اور دیگر سوالات شامل تھے۔

نواز شریف کے سب سے بڑے صاحبزادے حسین نواز کو پہلی بار جے آئی ٹی کے سامنے 29 مئی کو طلب کیا گیا جہاں ان سے تقریباً اڑھائی گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔ اس پیشی کے بعد حسین نواز کو مزید پانچ بار اس کمیشن کے سوالات کا سامنا کرنے کے لیے آنا پڑا۔ ان کی چھٹی اور آخری پیشی چار جولائی کو تھی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حسین نواز سے کمیشن نے مختلف پیشیوں میں ان سے لندن میں ان کی جائیداد اور اس کو خریدنے کے لیے رقم کے ذرائع کے بارے میں پوچھا۔

حسین نواز سے ان کے ٹی وی انٹرویو کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ 1999 میں لندن میں ایک طالبعلم تھے اور کرائے پر رہ رہے تھے۔ حسین نواز سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جوابات میں تضاد کے بارے بھی معلوم کیا گیا۔وزیراعظم میاں نواز شریف کے چھوٹے بیٹے حسن نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے تین مرتبہ پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا جس میں ان سے کاروبار اور جائیداد کے بارے میں سوالات کیے گئے۔

جے آئی ٹی نے حسن نواز کو تین جون کو پہلی دفعہ بلایا تھا جہاں ان سے تقریباً سات گھنٹے تک سوالات کیے گئے جس میں لندن کے مے فیئر علاقے میں خریدے جانے والے فلیٹ کے لیے درکار رقم کے ذرائع کا پوچھا گیا۔اس کے علاوہ حسن نواز سے ان کے لندن میں ان کے بینک اکاﺅنٹس کی تفصیلات، نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت اور پاناما پیپرز میں ان کے نام شامل ہونے کے حوالے سے مختلف سوالات کیے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادی مریم شریف کو بھی ان کے بھائیوں اور والد کی طرح جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے احکامات ملے اور وہ پانچ جولائی کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں پیشی کے لیے گئیں۔ مریم نواز شریف خاندن کی آٹھویں فرد تھیں جنھیں تفتیش کے لیے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں مریم نواز کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا لیکن جے آئی ٹی نے انھیں ان کے والد کی کفالت میں ہونے کے بارے میں، لندن میں خاندان کی جائیداد کی ملکیت، مختلف کمپنیوں میں ان کی ملکیت اور بھاری رقوم کے تحائف دینے کے بارے میں سوالات کیے گئے۔

مریم نواز شریف کے شوہر کیپٹن صفدر کو بھی جے آئی ٹی کے کمیشن کے سامنے 24 جون کو پیش ہونے کا حکم ملا جہاں ان سے تقریباً پانچ گھٹنے سوالات کیے گئے۔سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کے حوالے سے کیے گئے مقدمات میں کیپٹن صفدر کو جواب کنندہ قرار دیا گیا تھا لیکن حتمی فیصلے میں ان کا ذکر نہیں تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی نے ان سے شریف خاندان کے کاروباری معاملات کے بارے میں سوالات کیے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا جہاں وہ تین جولائی کو پیش ہوئے۔شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں اسحاق ڈار کو سب سے اہم گواہ سمجھا جاتا تھا لیکن جے آئی ٹی کے ارکان نے انھیں زیادہ انتظار بھی نہیں کروایا اور ان سے صرف ایک گھنٹے سے بھی کم پوچھ گچھ کی جبکہ اس کے برعکس وزیراعظم نواز شریف سے تین گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف درج ہونے والے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے جہاں انھوں نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کرتے تھے۔ تاہم جے آئی ٹی کے سامنے انھوں نے کہا کہ یہ اعترافی بیان انھوں نے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا تھا۔

نواز شریف کے بھائی اور صوبہ پنجاب کے وزیراعلی میاں شہباز شریف کو بھی 17 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے بلایا گیا جہاں انھوں نے چار گھنٹوں تک کیے گئے سوالات کے جوابات دیے۔شہباز شریف کا نام سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں تھا لیکن ماضی میں ان پر اپنے بھائی کے ساتھ حدیبیہ پیپر ملز کے معاملے میں نام ملوث تھا۔شریف برادران کے کزن اور ان کے کاروباری معاملات میں قریبی ساتھی طارق شفیع کو بھی جے آئی ٹی کے سامنے دو دفعہ بلایا گیا۔

ان کی پہلی پیشی 15 مئی کو تھی جبکہ دوسری دفعہ انھیں دو جولائی کو طلب کیا گیا اور گلف سٹیل ملز کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔طارق شفیع کو اس کیس میں کافی اہمیت حاصل ہے اور انھوں نے سپریم کورٹ میں جاری پاناما پیپرز کے مقدمے میں بھی دو دفعہ حلفیہ بیانات جمع کرائے تھے۔ جے آئی ٹی کے سامنے پہلی پیشی کے بعد طارق شفیع نے تفتیش کمیشن پر ہراساں کرنے کا بھی الزام لگایا تھا۔

قطری شہزادے اور ملک کے سابق وزیر اعظم حمد بن جاسم الثانی کا دیا گیا خط پاناما پیپرز کیس کا اہم محور رہا ہے اور اس حوالے سے ان کی تفتیش کے بارے میں کئی سوالات تھے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے راہنماﺅں نے اپنے بیانات میں مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ قطری شہزادے کے بیان کے بغیر وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ تسلیم نہیں کریں گے۔کمیشن کے دو ممبران اس سلسلے میں قطر گئے اور ان کو خطوط بھی لکھے لیکن حمد بن جاسم الثانی نے جے آئی ٹی کے سوالات کے جواب دینے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ پاکستانی تحقیقی کمیشن کی حدود قطری شہزادے پر لاگو نہیں ہوتی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے سپریم کورٹ میں وہ اپنے جوابات شامل کرا چکے ہیں اور کمیشن کے ارکان شہزادے کے محل میں ان سے سوالات کر سکتے ہیں۔پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنماءرحمان ملک کو بھی جے آئی ٹی میں سوالات کے لیے طلب کیا گیا جہاں وہ 23 جون کو پیش ہوئے۔رحمان ملک جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوے کی دہائی میں حکومت کے دوران ایف آئی اے کے ڈائریکٹر تھے، ان سے شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے حوالے سے کی گئی تفتیش کے بارے میں سوالات کیے گئے۔

یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں رحمان ملک کے سربراہی میں ایف آئی اے نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز اور لندن میں جائیداد کے حوالے سے تفتیش کی تھی۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پہلے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب 29 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جہاں انھوں نے نیب میں اپنے دور قیادت میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرملز، اتفاق فاونڈری اور رائے ونڈ میں جائیداد پر نیب کی تفتیش کے بارے میں جے آئی ٹی کے سوالات کے جواب دیے۔

نیشنل بینک پاکستان کے صدر سعید احم بھی 30 مئی کو کمیشن کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان سے تقریباً دو گھنٹے تک سوالات کیے گئے۔واضح رہے کہ سعید احمد پہلے جے آئی ٹی کے بلانے پر نہیں گئے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ کے بینچ نے خبردار کیا کہ دوبارہ حکم عدولی کی صورت میں ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹس جاری کیے جائیں گے۔ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ظفر حجازی اور ان کے ادارے کے پانچ افسران نے 30 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیشی دی جہاں ان سے کمیشن کے اراکین نے کئی گھنٹوں تک شریف خاندان کے کاروباری اور مالی دستاویزات کے بارے میں سوالات کیے۔

نیب کے موجودہ سربراہ قمر زمان چوہدری کو بھی جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا جہاں وہ پانچ جولائی کو پیش ہوئے۔ کمیشن کے ارکان نے ان سے حدیبیہ پیپر ملز کے بارے سوالات کیے۔