وفاقی اردو یونیورسٹی مسائل کا شکار ، معاملات بہتر نہیں، دریائے ستلج کا پانی خشک ہونے کی بات درست ہے، لنک کینالز کے ذریعے اس میں پانی ڈالنے کا نظام موجود ہے لیکن اس میں تکنیکی خامیاں بھی ہیں، ملحقہ شہروں میں چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر اور ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے

وزیر مملکت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت انجینئر بلیغ الرحمن کا یوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کی جانب سے وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں وائس چانسلر کی خالی آسامی سے متعلق سوال کا جواب

پیر 6 نومبر 2017 22:07

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 نومبر2017ء) وزیر مملکت برائے تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی مسائل کا شکار ہے اس کے معاملات بہتر نہیں، دریائے ستلج کا پانی خشک ہونے کی بات درست ہے، لنک کینالز کے ذریعے اس میں پانی ڈالنے کا نظام موجود ہے لیکن اس میں تکنیکی خامیاں بھی ہیں، ملحقہ شہروں میں چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر اور ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔

پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کی جانب سے وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں وائس چانسلر کی خالی آسامی سے متعلق اٹھائے گئے معاملے کا جواب دیتے ہوئے انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کئی مسائل کا شکار ہے، معاملات اتنے بہتر نہیں ہے، ایک ذمہ دار ڈاکٹر ظفر اقبال پر الزامات تھے، جسٹس حازق الخیری معاملات کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے ایک رپورٹ دی جس کو کمیٹی زیر غور لائی اور الزامات کو درست قرار دیا۔

(جاری ہے)

ہائی کورٹ نے انہیں ان کی رٹ پر بحال کر دیا جس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر سلیمان سے جا کر فزیکل پوزیشن لیا، اس میں کچھ کشیدگی ہوئی، یونیورسٹی سینٹ کی میٹنگ سے ایک روز قبل انہوں نے اطلاع دی کہ وہ دل کے دورے کی وجہ سے میٹنگ میں حاضر نہیں ہو سکتے۔ 11 اکتوبر 2017ء کو یونیورسٹی کے رجسٹرار نے مطلع کیا کہ ان کی طبیعت بہتر ہے اور وہ کام کر رہے ہیں، دوبارہ میٹنگ کال کی گئی، 18 اکتوبر 2017ء کو قومی اسمبلی اجلاس میں انہوں نے شرکت کی۔

وہاں انہوں نے کچھ نامناسب الفاظ کہے جس پر تحریک استحقاق کا معاملہ چل رہا یہ، 19 اکتوبر کو یونیورسٹی سینٹ کے اجلاس میں وہ کہنے کے باوجود وہ نہیں آئے، سینیٹر سعود مجید کی جانب سے دریائے ستلج کا پانی خشک ہونے، جسے دوبارہ بھرا نہیں جا رہا سے متعلق معاملے کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ دریائے ستلج کا پانی خشک ہونے کی بات درست ہے، سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا بھارت کو دیئے گئے تھے، یہ بد قسمتی ہے کہ پانی نہ ہونے سے اس علاقے کی تہذیب و تمدن ختم ہو رہا ہے، یہ مسئلہ لمحہ فکریہ ہے، جو دریا بھارت کو دیئے گئے تھے ان کے حصے کا پانی لنک کینال سے ملنا تھا اور یہ مل بھی رہا ہے، وفاق واٹر شیئرنگ کرتا ہے، صوبوں کو اس بات کا خیال کرنا ہوتا ہے کہ وہ ریور چارجنگ کے لئے پانی دیں۔

وفاقی حکومت ارسا کے ذریعے اپنا کام کر رہی ہے،تکنیکی خامیاں اس میں موجود ہیں کہ اگر دریا کو بھریں گے تو پانی نہروں کے لئے نہیں ةو گا، شہروں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر یا ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، دریائے ستلج کے حوالے سے اس طرح کی کوئی تجویز زیر غور ہے۔

متعلقہ عنوان :