افغانستان ، طالبان کے سیکورٹی چیک پوسٹوں پر حملے، 6پولیس اہلکار ہلاک ، 8زخمی

جھڑپوں میں 8شدت پسند بھی مارے گئے ، قندوز میں بم پھٹنے سے 7طالبان جنگجو ہلاک ، 2دیگر زخمی افغان اور غیر ملکی اسپیشل فورسز کا طالبان کی جیل پر چھاپہ ،30 افراد بازیاب طالبان نے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات حاصل کرلیے ہیں،افغان وزارت دفاع کا اعتراف ْ ہم اس بات کو مسترد نہیں کر سکتے کہ طالبان اندھیرے میں دیکھنے میں چشمے استعمال کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس یہ کافی تعداد میں نہیں ہیں، انھوں نے اس کا استعمال صوبہ فرح، ہلمند اور چند دیگر مقامات پر کیا، جنرل دولت وزیری

اتوار 19 نومبر 2017 19:01

+کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 نومبر2017ء) افغانستان میں طالبان کے سیکورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں میں 6پولیس اہلکار ہلاک اور 8زخمی ہوگئے جبکہ جھڑپوں میں 8شدت پسند بھی مارے گئے ،ادھر شمالی صوبہ قندوز میں بم پھٹنے سے 7طالبان جنگجو ہلاک اور 2دیگر زخمی ہوگئے،افغان اور غیر ملکی اسپیشل فورسز نے جنوبی صوبہ ہلمند میں طالبان کی جیل پر چھاپہ مار کر30 افراد کو بازیاب کروا لیا ،دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے عہدیداروں نے اعتراف کیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات حاصل کیے ہیں تاہم حکام نے ان اطلاعات کی تصدیق کرنے سے گریز کیا ہے کہ طالبان کو یہ آلات مبینہ طور پر روس نے فراہم کیے ہیں۔

اتوار کو افغان میڈیا کے مطابق مغربی صوبہ فراح میں طالبان نے سیکورٹی چیک پوائنٹس پر حملے کرکے 6پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا جبکہ 8دیگر اہلکار زخمی ہوگئے۔

(جاری ہے)

سٹی پولیس کے ترجمان اقبال باہیر نے بتایا ہے کہ جھڑپوں کے دوران 8شدت پسند بھی مارے گئے۔جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب عسکریت پسندوں نے ضلع بالا بلوک کے علاقوں سربازار،وسات بازار،مندوائی اور فراح روڈ میں سیکورٹی چیک پوسٹوں پر حملے کیے۔

ترجمان کا کہنا تھاکہ طالبان نے حملے کے دوران 2چیک پوسٹوں پر قبضہ کرکے اسلحہ اور گولہ بارودتحویل میں لے لیا۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جنگجو?ں نے تین چیک پوسٹوں پر حملہ کرکے اسلحہ اور گولہ بارود اپنے قبضے میں لے لیا۔ادھر شمالی صوبہ قندوز میں بم پھٹنے سے 7طالبان جنگجو اس وقت ہلاک اور 2دیگر زخمی ہوگئے جب وہ ایک حملے کی تیاری کررہے تھے۔

افغان اور غیر ملکی اسپیشل فورسز نے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان کی جیل پر چھاپہ مار کر30 افراد کو بازیاب کروا لیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ افغان اور غیر ملکی اسپیشل فورسز نے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان کی جیل پر چھاپہ مار کر کم از کم 30 افراد کو بازیاب کروا لیا ہے۔افغان فوج اور صوبائی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جن افراد کو طالبان کی قید سے بازیاب کروایا گیا ان میں 12 سال سے کم عمر چار بچے اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

ان میں 20 افراد وہ تھے جنہیں طالبان نے حکومت کی مدد کرنے یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا تعلق افغان فوجیوں یا پولیس اہلکاروں سے ہونے پر یرغمال بنا رکھا تھا۔فوج کی 215 ویں میوند کور کے نائب ترجمان عبدالقادر بہادر زئی کا کہنا ہے کہ حراست میں رکھے گئے چھ افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں کہ انہیں طالبان نے کیوں پکڑا تھا۔

طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن افراد کو بازیاب کروایا گیا ہے وہ جرائم پیشہ عناصر تھے اور انہیں ڈکیتی، اغوا، ذاتی دشمنی اور ان الزامات کے تحت حراست میں رکھا گیا تھا اور ان کے مقدمات کی ابھی سماعت ہونا باقی تھی۔طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے ایک بیان میں کہا کہ جیل میں کوئی ایسا شخص بند نہیں تھا جس کا تعلق دشمن سے تھا اور(جہاں انہیں رکھا گیا) وہاں مناسب سیکورٹی نہیں تھی۔

افغانستان میں ہونے والے طالبان باغیوں کی کارروائیوں کا نشانہ نا صرف سرکاری فورسز ہیں بلکہ بعض اوقات عام شہری بھی ان کا نشانہ بنتے ہیں اس کے علاوہ عسکریت پسند ملکی اور غیر ملکی افراد کو اغوا کر کے انہیں حراست میں رکھنے کی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے عہدیداروں نے اعتراف کیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات حاصل کیے ہیں۔

لیکن حکام نے ان اطلاعات کی تصدیق کرنے سے گریز کیا ہے کہ طالبان کو یہ آلات مبینہ طور پر روس نے فراہم کیے ہیں۔رواں ہفتے حکام کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ طالبان عسکریت پسندوں کو جن جدید آلات کا مبینہ استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے وہ دراصل روس سے حاصل کیے گئے ہیں۔وزارت دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہم اس بات کو مسترد نہیں کر سکتے کہ طالبان اندھیرے میں دیکھنے میں چشمے استعمال کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس یہ کافی تعداد میں نہیں ہیں۔

انھوں نے اس کا استعمال صوبہ فرح، ہلمند اور چند دیگر مقامات پر کیا۔امریکی موقر اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے گزشتہ پیر کو خبر دی تھی کہ طالبان عسکریت پسند رات میں دیکھنے والے انتہائی جدید چشمے استعمال کرتے ہوئے صوبہ فرح کے دارالحکومت کے قریب ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے آٹھ افغان پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔یہ چشمے انتہائی کم روشنی میں استعمال کرنے والے کو اپنا ہدف صاف صاف دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

یہ آلات امریکی فورسز اور ان کے زیر تربیت افغان اسپیشل فورسز استعمال کرتے رہے ہیں۔جدید آلات کے طالبان کے ہاتھ لگنے کی خبریں ایک عرصے سے ذرائع ابلاغ میں آتی رہی ہیں، لیکن حال ہی میں طالبان کے پاس موجود مبینہ روسی ساختہ جدید آلات سے افغان حکومت کو یہ تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کس طرح عسکریت پسند یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔

کابل میں روس کے سفارتخانے کے حکام نے تردید کی ہے کہ ماسکو نے طالبان کو مالی اور عسکری طور پر کوئی مدد فراہم کی ہے اور یہ خبریں بے بنیاد ہیں۔اقوام متحدہ کی گزشتہ سال سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ طالبان کو جدید عسکری آلات تک رسائی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ جدید ہتھیاروں تک طالبان کی رسائی سے جاری لڑائی مزید مہمیز ہوسکتی ہے اور طالبان افغان سکیورٹی فورسز کے مقابلے مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔

عتیق اللہ امرخیل افغان فوج کے سابق جنرل ہیں، وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "یہ چشمے رائفل پر لگا لیے جائیں تو یہ اور بھی خطرناک ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ رائفل استعمال کرنے والے کو رات میں اپنا ہدف اتنا واضح طور پر دکھا سکتے ہیں کہ جس طرح دن کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک ہیں۔وزارت دفاع کے ترجمان وزیری نے تاہم افغان سکیورٹی فورسز کو درپیش خطرے کو قدرے کم بیان کیا۔

کسی کے ساتھ کچھ بھی نتھی کرنا آسان ہے۔۔یہ افغانستان کے دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ افغان حکومت یہ تحقیقات کرے گی تا کہ پتا چلا جا سکے کہ یہ چشمے روسی ساختہ ہیں۔روس 1979 سے 1989 تک افغانستان میں جنگ لڑتا رہا ہے اور حالیہ مہینوں میں اسے افغان اور امریکی حکام کی طرف سے طالبان سے تعلقات بڑھانے کے الزامات کا سامنا ہے۔

ماسکو یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ طالبان راہنماوں سے رابطے میں رہا ہے لیکن اس کا موقف ہے کہ اس رابطے کا مقصد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تعطل شدہ مذاکرات کو دوبارہ شروع کروانے کی کوشش ہے۔ان کا کہنا تھا کہ "ہم مسلسل معاونت کی خبریں مل رہی ہیں۔ ہم مصالحتی عمل میں پیش رفت میں کسی کی بھی معاونت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن عسکریت پسندوں کو مسلح کرنے کی کوشش پرامن مصالحتی عمل میں پیش رفت کا باعث نہیں ہے۔