سعودی عرب میں موجود پاکستانی فوج یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہو گی۔وزیردفاع‘اراکین سینٹ نے حکومتی وضاحت کو غیرتسلی بخش قراردے دیدیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 19 فروری 2018 19:08

سعودی عرب میں موجود پاکستانی فوج یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہو گی۔وزیردفاع‘اراکین ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 فروری۔2018ء) وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں موجود پاکستانی فوج یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہو گی۔پیر کو ایوانِ بالا کے سامنے سعودی عرب میں مزید فوج بھیجے جانے کے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج سعودی عرب میں صرف تربیت اور مشاورت کے عمل میں شریک ہے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان کے 1600 فوجی اہلکار پہلے سے سعودی عرب میں تعینات ہیں جبکہ وزیراعظم نے مزید ایک ہزار فوجی اہلکار سعودی عرب بھیجنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد وہاں موجود پاکستانی فوجیوں کی کل تعداد 2600 ہو جائے گی۔خرم دستگیر نے ایوان کو بتایا ان اہلکاروں کو 1982 کے پروٹوکول کے تحت بھیجا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے خرم دستگیر کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں انہوں نے بتائیں ہیں یہ ایوان پہلے سے جانتا ہے لہٰذا وہ یہ بتائیں کے مزید بھیجے جانے والے فوجیوں کو سعودی عرب میں کہا تعینات کیا جائے گا اور وہ وہاں کریں گے کیا؟انہوں نے کہا کہ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے بیان سے قبل ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور کیوں ایوان کو آگاہی اس بیان سے ملی۔

وزیر دفاع خرم دستگیر نے اعتراف کیا کہ وزارت دفاع کی جانب سے یہ بیان سامنے آنا چاہیے تھا اور اس واقعے میں ان کے سیکھنے کے لیے سبق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی منظوری کے بعد فوج نے یہ بیان جاری کیا تھا تاہم تسلیم کیا کہ ایوان کو آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔اس پر وزیر دفاع نے دوبارہ کھڑے ہو کر ایوان کو بتایا کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب کی فوج کو تربیت اور ان کی راہنمائی کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے خاصے خدشات پائے جاتے ہیں اور میں یقین دہانی کرواتا ہوں پاکستانی فوجی اہلکار یمن کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔`انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے اضافی اہلکار سعودی عرب کی مقامی فوج کی تربیت اور مشاورت کا کام کریں گے۔خرم دستگیر نے ایوان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا دفاعی تعاون پانچ دہائیوں پر محیط ہے اور سعودی فوج کی تربیت اور مشاورت کے لیے مزید ایک ہزار فوجی اس ملک کے ساتھ 1982 کے دوطرفہ پروٹوکول کے تحت ہو رہا ہے۔

وزیر دفاع نے فوجیوں کی تعیناتی کے مقام نہیں بتا سکتے اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا کہ اس کے لیے وہ بند کمرے کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں لیکن وزیر دفاع نے اصرار کیا کہ یہ معلومات دینا ان کے لیے مشکل ہوگا-خرم دستگیر نے بتایا کہ چونکہ پاکستانی افواج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پہاڑوں پر جنگ کا تجربہ ہے اور وہ اس میں مہارت حاصل کر چکی ہیں اس لیے وہ سعودی افواج کو اسی حوالے سے تربیت دیں گی۔

انہوں نے وضاحت دی کہ 1982 کے پروٹول میں یہ بات واضح ہے‘ اسی لیے پاکستانی فوجی صرف سعودی فوج کو مہارت اور قابلیت سکھانے جائیں گے۔پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 1982 کے پروٹوکول میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ہنگامی صورتحال میں انہی فوجیوں کو جنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور حکومت اس حوالے سے بھی ایوان کو مطمئن کرے۔اس موقعے پر دیگر جماعتوں کے اراکین نے اس حوالےسے ابہام پیدا کرنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مستقبل میں تعلقات پر خدشات کا اظہار کیا۔

متعلقہ عنوان :