سعودی عرب سے واپس بھیجے گئے پاکستانی مزدور بقایا جات کے منتظر

Sadia Abbas سعدیہ عباس منگل 20 فروری 2018 17:16

لوٹنے والے ملازمین میں زیادہ تر تعداد الیکٹریشن، رنگ کرنے والوں اور ..
لوٹنے والے ملازمین میں زیادہ تر تعداد الیکٹریشن، رنگ کرنے والوں اور مکہ اور اس کے اطراف میں فرش کی تزیئن کرنے والوں کی تھی
ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 فروری2018ء) سعودی آجر کمپنی کے دیوالیہ ہونے کے دو سال بعد بھی پاکستان لوٹنے والے بہت سے ملازمین اب تک اپنے بقایاجات کی ادائیگی کے منتظر ہیں۔ ان تمام متاثرین نے مل کر کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا ارادہ کیا ہے جو پانچ مارچ کو کراچی پریس کلب کے سامنے اور اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے کیا جائے گا۔

یہ 2016 کی بات ہے جب یکے بعد دیگر سعودی عرب میں موجود کمپنیوں نے خود کو دیوالیہ قرار دے دیا جس سے دمام، ریاض، طائف اور جدہ میں کام کرنے والے تقریباً 12000 پاکستانی متاثر ہوئے۔ ان کام کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد الیکٹریشن، رنگ کرنے والوں اور مکہ اور اس کے اطراف میں فرش کی تزیئن کرنے والوں کی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب اور سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔

(جاری ہے)

کراچی کے علاقے کیماڑی میں رہائش پذیر محمد شاہد سعودی عرب سے لوٹنے والے ملازمین میں سے ایک ہیں۔ محمد شاہد بتاتے ہیں کہ سنہ 2016 کے شروع میں انھیں کام سے یہ کہہ کر فارغ کیا گیا تھا کہ ان کو دوسری جگہ کام دلایا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ’ہمیں مطمئن کردیا گیا کہ ہمیں ہمارے بقایا جات دیے جائیں گے اور اس طرح ہمیں ریاض میں موجود قدسیہ کیمپ میں واپس بھیج دیا گیاـ لیکن اکتوبر 2016 کی رات کو مقامی پولیس کی گاڑیاں آئیں اور ہمیں واپس اسلام آباد بھیج دیا گیاـ‘محمد شاہد بتاتے ہیں کہ واپس آنے والوں میں سے 40 فیصد کے پاس نوکریاں ہیں لیکن باقی 60 فیصد اب بھی کام کی تلاش میں ہیں۔

وہ خود دیہاڑی پر چلے جاتے ہیں جس سے دن کے کچھ پیسے بن جاتے ہیں، لیکن محمد شاہد کہتے ہیں اس کمائی سے زیادہ نہیں بچتاـ ’میں رنگ و روغن کا کام کرنے مارچ 2014 کو کراچی سے سعودی عرب گیا تھا۔ میں اس کے علاوہ بھی جو کام مل جاتا تھا کرلیتا تھا اور اب بھی یہی کررہا ہوں۔ یعنی جو بھی کام مل جائے میں کرلیتا ہوں۔ لیکن پچھلے دو سال سے میرے پاس مستقل نوکری نہیں ہے تو گزر بسر میں مشکل ہوتی ہے۔

‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’مشکل اس بات کی ہے کہ ہمارے بقایاجات ان کے پاس رہتے تھے وہ اب تک واپس نہیں کیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم مارچ کے مہینے میں پرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا مقصد سعودی حکام سے اپنے دس مہینے کے بقایاجات مانگنا ہے۔‘محمد شاہد نے بتایا کہ پاکستان سمیت سات ملکوں کے لوگوں کو نکالا گیا تھا جن میں ترکی، مصر، لبنان، فلپائن اور انڈیا بھی شامل ہیں۔

’لیکن صرف پاکستانیوں کو ان کے حقوق نہیں ملے ہیں اور وہ خاموشی سے واپس آ گئے تھے لیکن اب ہم چاہتے ہیں کے اس طرف حکام کی توجہ دلائی جائے۔‘ اس بارے میں حکومتی ارکان نے پہلے بھی اپنا موقف بیان کرتے ہوئے سعودی عرب سے لوٹنے والے ملازمین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ سعودی حکام سے بات چیت کا عمل جاری ہے جس سے ان کے بقایاجات دلانے میں مدد کے جائے گی۔
لوٹنے والے ملازمین میں زیادہ تر تعداد الیکٹریشن، رنگ کرنے والوں اور ..

متعلقہ عنوان :