ججز کا کام سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے‘ سب کو انصاف تول کردیا جائیگا‘ لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہم فیصلے دیر سے کرتے ہیں ہمیں اپنا ہائوس درست کرنا ہوگا‘ بار اور عدلیہ کو مل کر کام کرنا ہوگا‘ میں ایک دن یا ایک مہینے میں نظام کو ٹھیک نہیں کرسکتا‘ قانون بنانے والا نہیں نافذ کرنے والا ہوں‘ اگر حکومت کی کم ترجیح عدلیہ ہے تو ذمہ دار میں نہیں ہوں‘ بار ہمیں تجاویز دے کہ کس طرح مقدمات کے التواء کا دورانیہ کم کیا جائے‘ ہمارے جہاد میں بار کو بھی برابر کا کردار ادا کرنا ہوگا‘ نظام میں تبدیلی قانون بنانے سے آتی ہے ‘ہمیں اسی نظام کے تحت چلتے ہوئے نظام میں بہتری لانا ہوگی‘ جسٹس دوست محمد خان کی جانب سے الوداعی ریفرنس نہ لینے پر دلی تکلیف ہوئی

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا تقریب سے خطاب

جمعرات 19 اپریل 2018 17:48

ججز کا کام سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ..
پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 اپریل2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ججز کا کام سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے‘ سب کو انصاف تول کردیا جائے گا‘ لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہم فیصلے دیر سے کرتے ہیں ہمیں اپنا ہائوس درست کرنا ہوگا‘ بار اور عدلیہ کو مل کر کام کرنا ہوگا‘ میں ایک دن یا ایک مہینے میں اس نظام کو ٹھیک نہیں کرسکتا‘ قانون بنانے والا نہیں اسے نافذ کرنے والا ہوں‘ اگر حکومت کی کم ترجیح عدلیہ ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں‘ بار ہمیں تجاویز دے کہ کس طرح مقدمات کے التواء کا دورانیہ کم کیا جائے‘ ہمارے جہاد میں بار کو بھی برابر کا کردار ادا کرنا ہوگا‘ نظام میں تبدیلی قانون بنانے سے آتی ہے ہمیں اسی نظام کے تحت چلتے ہوئے نظام میں بہتری لانا ہوگی‘ جسٹس دوست محمد خان کی جانب سے الوداعی ریفرنس نہ لینے پر دلی تکلیف ہوئی۔

(جاری ہے)

جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بار کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو سنے بغیر باتیں کی گئیں۔ آپ کو مجھ پر اور سپریم کورٹ پر اعتبار کرنا چاہئے کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں ہوگی۔ انصاف تول کے دیا جائے گا دوست محمد خان کی ہر خواہش میں نے پوری کی ہے ہم نے اپنا کام نیت اور ایمانداری سے شروع کیا۔

پیر کو دوست محمد کی ریٹائرمنٹ تھی انہوں نے ذاتی وجوہات کی بناء پر الوداعی ریفرنس لینے سے انکار کردیا۔ میرے رابطہ کرنے پر بھی انہوں نے مجھے نہیں سنا اس پر مجھے دلی افسوس ہوا ہے۔ ہماری پوری ٹیم ان کے لئے تحفہ لیکر آتی تھی میں ان کے ریفرنس کیلئے تقریر پہلے ہی تیار کرچکا تھا لیکن انہوں نے شرکت سے معذرت کی۔ ہم نے ان کو کہا کہ آپ چیف جسٹس کے گھر کھانے پر آئیں لیکن انہوں نے ہماری تمام آفرز مسترد کردیں۔

آخر کار وہ ہمارے ساتھ چائے پینے پر راضی ہوئے اس پر بار نے مجھے ذمہ دار ٹھہرایا جو تکلیف دہ ہے۔ کیا میں آپ کو اتنا کم ظرف لگتا ہے۔ میں اس ادارے کا سربراہ بھی ہوں میں اتنا نیچ نہیں ہوسکتا جو غلط فہمی ہوئی میں معذرت کے لئے تیار ہوں۔ بات پشتون قوم پر اٹھی اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں خان صاحب کو آج بھی ریفرنس دینے کو تیار ہوں صدق دل سے معافی مانگنے پر معاف کردینا چاہئے۔

ہمیں اپنا ہائوس ان آردر کرنا ہوگا میں اکیلا اس نظام کو ٹھیک نہیں کرسکتا یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان مقدمات کو جلد از جلد نمٹائیں۔ مشکلات ہیں جن میں جانا نہیں چاہتا 1881کا قانون آج تک چل رہا ہے تو سپریم کورٹ اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔ ججز کم ہیں تو میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ پستون میرے بھائی اور میری جان ہیں اس جہاد میں بار کو بھی اپنا کردار کرنا ہوگا میں اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔

آئیں اور مل کر ایک ساتھ کام کریں۔ بار اور عدلیہ ایک جسم کے دو حصے ہیں آئیں مل کر کام کریں۔ ہسپتالوں میں لوگوں کو تکلیف میں دیکھا ہے جس آدمی کو وقت میں انصاف نہیں ملتا وہ بھی تکلیف میں ہے۔ میں اکیلا اس نظام کو ایک دن یا ماہ میں بدل نہیں سکتا۔ تبدیلیاں قانون بنانے سے آتی ہیں لیکن قانون بنانا میرا کام نہیں ہے عدالتوں میں جھوٹ کا نظام ختم کرنا ہوگا۔

بہت سی وجوہات ہیں جنہوں نے اس نظام کو خراب کیا ہے جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے۔ عدلیہ کا کام قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ اس چیز کا رجحان مقدمات کی تاخیر کا باعث بنتا ہے مجھے آئیڈیاز دیں کہ ہم کس طرح مقدمات کی تاخیر کو کم کرسکیں آپ سب مل کر کام کریں اور آکر بتائیں۔ میرے دروازے آپ کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اگر ریاست کی سب سے کم توجہ عدلیہ پر ہے تو اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں مجھے اس سسٹم کو درست کرنے میں آپ کی معاونت درکار ہے۔