چیف جسٹس کا شیخ زید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش کا نوٹس

پنجاب حکومت کو یونٹ کی بحالی اور اسے معیار کے مطابق بنانے کیلئے ایک ماہ کی مہلت

پیر 30 اپریل 2018 23:05

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 اپریل2018ء) چیف جسٹس پاکستان نے شیخ زید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش کا نوٹس لے لیا اور پنجاب حکومت کو یونٹ کی بحالی اور اسے معیار کے مطابق بنانے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے ۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کی چیف جسٹس کا شیخ زید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش پر شدید ناراضگی اظہار کیا.

کارروائی کے دوران ڈاکٹر فیصل مسعود نے فل بنچ کو یونٹ کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی. چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ کیوں لیور ٹرانسپلانٹ بند ہی. ڈاکٹر فیصل مسعود نے بتایا کہ ہسپتال میں ٹرانسپلانٹ یونٹ میں 2 اموات ہوئی اور لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق سے پوچھا کہ بتائیں خواجہ سلمان رفیق صاحب یہ کیا ہو رہا ہی.

چیف جسٹس پاکستان نے صوبائی وزیر صحت کو کیا کہ ایک ہسپتال کو بہتر کرنے کی بجائے دوسرا ہسپتال بنا دیا. چیف جسٹس پاکستان نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب سے شیخ زید ہسپتال پنجاب حکومت کے زیر استعمال آیا، اس کی حالت ٹھیک نہیں ہوئی. وزیر صحت پنجاب نے چیف جسٹس پاکستان سے استدعا کی کہ آپ شفقت کی نگاہ سے دیکھیں جس پر چیف جسٹس پاکستان نے جواب میں کہا کہشفقت کی نگاہ سے ہی دیکھا، ہسپتالوں میں کچھ نظر نہیں آیا.

یہ بتائیں سابق چیرمین شیخ زید کی تقرری کس کی سفارش پر ہوئی. ڈاکٹر فرید کس کے دوست ہیں اور انکے پیچھے کس کی سفارش تھی. بنچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ غفلت برتنے والے سرجن اور ڈاکڑز کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی. جسٹس اعجاز الاحسن نے افسوس کا اظہار کیا کہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی ہڑتال کی وجہ مریض رل جاتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے صوبائی وزیر صحت مخاطب کیا اور کہا کہ محکمہ صحت کے اندر بھی احتساب ہونا چاہیی.

چیف جسٹس نے شیخ زید ہسپتال سمیت تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں تمام سہولیات ایک ماہ میں فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر افسروں کے تقرر کے معاملے پر ریمارکس دیئے ہیں کہ عہدوں کی بندر بانٹ برداشت نہیں کی جائی. صحت کے شعبہ کو ٹھیک کرنا ہی. اگر ادارے کا فورینزک آڈٹ کرا لیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ بیس ارب میں سے سات ارب بھی نہیں لگا ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر افسروں کے تقرر کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کی پی کے ایل آئی کی جانب سے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر یار خان پیش ہوئے اور فل بنچ کو بتایا کہ ادارہ تعمیری مراحل میں ہے اور 43 ڈاکٹرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں، گل بنچ کے استفسار ڈاکٹر عامر یار خان نے بتایا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر بارہ لاکھ روپے تنخواہ وصول کررہے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ 8 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر پی کے ایل آئی میں ملازمت کررہی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری اسپتالوں میں کسی ماہر ڈاکٹر کو اتنی تنخواہ دی جا رہی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا کہ باہر سے آنے والے ڈاکٹرز اور مقامی ڈاکٹرز میں یہ امتیازی سلوک کیوں ہی.

پی کے ایل آئی کے ڈاکٹر عامر یار نے بتایا کہ ادارے میں تعینات ڈاکٹرز کے پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے کسی بھی مقامی ڈاکٹر نے ملازمت کیلئے رجوع ہی نہیں کیا. چیف جسٹس پاکستان نے چیف سیکرٹری پنجاب کو باور کرایا کہ اگر پاکستان میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا ہے تو بتا دیں۔ بنچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بیرونی ممالک سے اعلی تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والوں کو کمرشل بنیادوں کی بجائے فلاحی بنیادوں پر کام کرنا چاہیی. چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کا دورہ بھی کیا۔