سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 4 مئی 2018 15:16

سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعے کی جوڈیشل ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 مئی۔2018ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں یوم آزادی صحافت کی ریلی کے دوران صحافیوں پر پولیس تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صحافیوں پر تشدد سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے نمائندے پرویز شوکت اور انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران پرویز شوکت نے عدالت کو بتایا کہ ہر سال 3 مئی کو آزادی صحافت کا دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، اسی سلسلے میں آزادی صحافت کے دن ریلی نکالی گئی تھی تو پولیس نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔انہوں نے کہا کہ پولیس نے صحافیوں پر تشدد کیا‘ صحافی پرامن شہری ہیں اور قانون اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مذکورہ واقعے پر عدلیہ کے نوٹس لینے پر ہمیں خوشی ہوئی اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ریاست کا چوتھا ستون ہیں، پولیس کا موقف یہ ہوگا کہ ریڈ زون میں جانے کی اجازت نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں کے پاس کوئی لاٹھی تو نہیں تھی اور ریڈ زون میں کس قانون کے تحت احتجاج کی اجازت نہیں ہے؟ اور ریڈ زون میں کس کو احتجاج کی اجازت ہے؟اس پر آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے اور ریلی کے لیے این او سی لینا ایک قانونی تقاضہ ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں کب سے دفعہ 144 نافذ ہے، جس پر ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ یہ 2014 سے یہاں نافذ ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کتنے عرصے کے لیے اس دفعہ کا نفاذ ہوسکتا ہے؟دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دفعہ 144 کا نفاذ کسی سیکورٹی خطرے کی صورت میں ہوسکتا ہے، کیا صبح 5 لوگ ایک ساتھ واک کر رہے ہوں تو انہیں بھی پکڑ لیا جائے گا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکام کو اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا حق نہیں، اس پر آئی جی نے بتایا کہ محکمہ پولیس، صحافیوں کی عزت کرتا ہے، پولیس نے صحافیوں کو ریڈ زون میں جانے سے منع کیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صحافیوں نے پتھر پھینک کے کوئی گملا توڑا، جس پر آئی جی پولیس نے بتایا کہ صحافیوں نے ڈی چوک پر پولیس حصار توڑنے کی کوشش کی۔دوران سماعت عدالت میں موجود سنئیرصحافی شکیل قرار نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر نے ہمیں ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی تھی لیکن ڈی چوک پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں چائنا چوک پر زبردستی روک لیا گیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صحافیوں کا احتجاج پرامن تھا اورپرامن احتجاج یا خواتین پر ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں، معلوم نہیں بہنوں کا احترام کدھر چلا گیا؟ عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ دنیا میں لوگ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں، مقامی انتظامیہ دفعہ 144 نافذ کرکے بھول گئی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ تاحیات دفعہ 144 کا نفاذ کردی جائے۔اس موقع پر عدالت نے اسلام آباد میں صحافیوں پر تشدد کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیشن جج سہیل ناصر واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرکے 10 روز میں رپورٹ جمع کروائیں۔