دہشت گردی کیخلاف علما کا فتوی اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے، ڈاکٹر محمد سرور

پیغام پاکستان پر عمل درآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی،وائس چانسلر گومل یونیورسٹی

بدھ 23 مئی 2018 23:38

ڈیر ہ اسماعیل خان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 مئی2018ء) گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف علما کا فتوی (پیغام پاکستان) اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے، جس پر عمل درآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور دنیا کے سامنے اسلام کی تعلیمات کے علاوہ پاکستانی معاشرے کا مثبت تاثر بھی اجاگر ہوگا۔

نئی نسل کو اس فتوی سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے پیغام پاکستان کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔ سیمینار میں طلبہ اور ماہرین تعلیم نے پیغام پاکستان کے متعدد نکات پر اظہار خیال کیا انہوں نے کہاکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شدت پسندی، خون ریزی اور خود کش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں، جو قطعا ناجائز اور حرام ہیں،پیغام اسلام کے نام سے جاری ریاستی بیانیہ قرار دیئے جانے والے علما کے اس فتوے کو ریاستی اداروں کی تائید حاصل ہوئی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مختلف مکاتب فکر کے علما اور وفاق المدارس نے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے جو فتوی جاری کیا ہے وہ درست سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام امن محبت اور رواداری کا دین ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف علما کا فتوی(پیغام پاکستان) ہمیں یکجا کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرے گا اور ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کے لیے ہمیں متحد ہو کر ہی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے پیغام پاکستان کے ذریعے ہم پوری قوم کو متحد کرسکتے ہیں اور پاکستان کو وہ امن و استحکام میسر آسکتا ہے، جس سے ہم 21 ویں صدی میں پاکستان کو ایک ممتاز ملک اور ایشیا کا ٹائگر بنا سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا 70 سال بعد ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ پاکستان کا وہ خواب جس میں ہم نے لوگوں کو خود اعتمادی دینی تھی پورا نہیں ہوسکا یہ سب تب ہی ممکن ہوتا ہے جب قوم کی خود اعتمادی اور بیانیہ سامنے ہو لیکن جب کسی قوم کا اپنے بارے میں بیانیہ منتشر ہوجاتا ہے تو وہ بھی منتشر الخیال افراد کا ایک گروہ بن جاتی ہے، جس کے بعد تنازعات جنم لیتے ہیں ہم اس خطے میں کئی عرصے سے تنازعات کو بھگت رہے ہیں اور آج جو حالات ہمیں درپیش ہیں وہ مکمل طور پر ہمارے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہے اگر پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظر تھا تو اس ملک کی بقا کی بنیاد ایک قومی نظریہ ہے انہوں نے کہا کہ آج جہاں پوری دنیا میں اسلام کا منفی تاثر ابھر رہا ہے اس منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے اس بیانیہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

جس طرح پاکستان کے علماکرام نے اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف بیانیہ اپنایا ہے اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک مل کر ایک بیانیہ اپنائیں جس میں دہشت گردی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو کی نہ صرف شدید مذمت کی جائے بلکہ اسے حرام قرار دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج سیمینار میں طلبہ نے پیغام پاکستان بیانیہ کے جن امور پر باریک بینی سے جس طرح اظہار خیال کیا ہے وہ اس بیانیہ کی نوجوان نسل میں قبولیت کا ثبوت ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے ثمرات سے ہماری نسلیں مستفید ہونگی۔