زری پالیسی کمیٹی کا پالیسی ریٹ50 بی پی ایس اضافے سے 6.50 فیصد کرنے کا فیصلہ

جمعہ 25 مئی 2018 18:13

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 مئی2018ء) زری پالیسی کمیٹی نے 28 مئی 2018 سے پالیسی ریٹ کو 50 بی پی ایس بڑھا کر 6.50 فیصد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے جمعہ کو جاری کردہ زری پالیسی میں عبوری تخمینے کے مطابق پاکستان کی معاشی نمو مالی سال 18ء کے لئے 5.8 فیصد کی سطح حاصل کرے گی جو 13 سال کی بلند ترین نمو ہے۔ ساتھ ہی عمومی مہنگائی معتدل ہے اور توقع ہے کہ 6.0 فیصد کے سالانہ ہدف سے خاصی کم رہے گی۔

تاہم گذشتہ اجلاس کے بعد سے زری پالیسی کمیٹی کے تجزیے کے مطابق صحت مند معاشی نمو اور کم مہنگائی کے ربط کی پائیداری کو لاحق خطرات کا توازن بدلا ہے جس کی وجوہ یہ ہیں۔ اول، برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کچھ کمی کے باوجود تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور رقوم کی محدود آمد کے باعث توازن ادائیگی کی صورت حال میں مزید بگاڑ آیا ہے۔

(جاری ہے)

دوم، مالیاتی خسارے کا نظرثانی شدہ تخمینہ جی ڈی پی کا 5.5 فیصد ہے جبکہ مالی سال 18ء کے لئے ابتدائی طور پر 4.1 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، یہ پہلے متوقع سطح کے مقابلے میں مالیاتی توسیع کی خاصی بلند سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جڑواں خسارے ملک میں بلند مجموعی طلب کے عکاس ہیں اور قلیل مدتی معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) مالی سال 18ء کے پہلے 10 مہینوں میں اوسطا 3.8 فیصد کی سطح پر ہے جس کی بڑی وجہ کم غذائی مہنگائی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جولائی تا اپریل مالی سال 18ء کے دوران اوسط غذائی مہنگائی 1.8 فیصد رہی جبکہ سال بسال غذائی مہنگائی مارچ اور اپریل 2018ء میں صفر کے قریب تھی۔ گندم اور چینی کے کافی ذخائر کے ساتھ تلف پذیر اشیا کی مناسب فراہمی کی بنا پر یہ ممکن ہوا۔ اس کے برخلاف پچھلے دو ماہ کے دوران سال بسال غیرغذائی غیر توانائی قوزی مہنگائی کی اوسط بڑھ کر 6.4 فیصدہوگئی جس سے معیشت میں مہنگائی کے دباو میں اضافے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

مالی سال 18ء کی بقیہ مدت اور مالی سال 19ء میں مہنگائی کی راہ کا تعین زیادہ تر تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کے منظر نامے میں واضح تبدیلی اور اس کے ہمراہ تیل کی ملکی قیمتوں میں اضافے پر اس کے اثر، مضبوط طلب، شرح مبادلہ میں ردوبدل کے تاخیر سے اثر، غذائی مہنگائی کے موجودہ راستے پر گامزن رہنے اور مہنگائی کی توقعات کے سروے پر مبنی پیمانوں میں تیزی سے ہو گا۔

ان حالات سے مشروط، مالی سال 18ء میں اوسط مہنگائی تخمینا اسٹیٹ بینک کی ماڈل پر مبنی حد3.5-4.5 فیصد میں رہے گی جبکہ مالی سال 19ء کی اوسط مہنگائی کے 6 فیصدکے سالانہ ہدف سے کچھ اوپر رہنے کا تخمینہ ہے۔ رسد کے حوالے سے دیکھیں تو حقیقی شعبے میں مالی سال 18ء کے دوران وسیع البنیاد صحت مند نمو درج کی گئی۔ اہم فصلوں کی مضبوط نمو اور گلہ بانی میں معتدل اضافے کے طفیل زرعی شعبے میں نہ صرف گذشتہ سال کے مقابلے میں قابل ذکر بہتری آئی ہے بلکہ نمو اپنے سالانہ ہدف 3.5 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے۔

اس دوران صنعتی شعبے میں 5.8 فیصد نمو ہوئی جس کی بنیادی وجہ تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) میں نمایاں بہتری ہے۔ اجناس پیدا کرنے والے شعبے میں اس بہتری کے ہمراہ بڑھتی ہوئی مجموعی طلب نے خدمات کے شعبے میں نمو کو 6.4 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔ نمو کی اس بھرپور رفتار اور گاڑیوں اور تعمیرات سے منسلک صنعتوں میں آئندہ سرمایہ کاریوں کے پیش نظر حکومت نے مالی سال 19ء کے لئے حقیقی جی ڈی پی نمو کا ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا ہے۔

تاہم اسٹیٹ بینک کے مجموعی معاشی صورت ِحال کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہدف کافی بلند ہے اور اس کا بہت زیادہ انحصار اس امر پر ہوگا کہ تمام بیرونی کھاتوں پر بڑھتے ہوئے دباو سے نمٹنا جائے، جس کا آئندہ سطور میں ذکر آئے گا، نیز اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اوسط مہنگائی مالی سال 19ء میں اپنے 6 فیصد ہدف کے قریب رکھی جائے۔ یکم جولائی تا 18 مئی مالی سال 18ء کے دوران زرِ وسیع کی رسد میں محض 4.9 فیصد کی مجموعی توسیع دکھائی دی جبکہ گذشتہ برس کی اسی مدت میں یہ 7.3 فیصد تھی۔

مالی سال 18ء میں زری توسیع کلی طور پر اعانتِ میزانیہ کے لئے حکومتی قرضوں اور نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضوں میں متنوع اور بھرپور نموکے تسلسل کی وجہ سے ہوئی۔ جولائی تا اپریل مالی سال 18ء کے دوران نجی کاروباری اداروں نے جاری سرمائے اور معین سرمایہ کاریوں دونوں میں 482 ارب روپے کے قرضے لئے۔ اسی دوران صارفی مالکاری میں بھی 69 ارب روپے کی خالص توسیع نظر آئی، جس کی وجہ سے صنعتی مصنوعات، بالخصوص گاڑیوں اور پائیدار صارفی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا۔

نمو اور اجناس کی قیمتوں کی بحالی کے حوالے سے مذکورہ بالا خطرات کے سوا، مالی سال 19ء کے آئندہ مہینوں میں ان رجحانات کے برقرار رہنے کا امکان ہے کیونکہ نجی شعبہ نمو پذیر معیشت، بالخصوص سی پیک سے متعلق سرمایہ کاریوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اپنی فنڈنگ کی ضروریات کو ترتیب دے رہا ہے۔ تاہم مالی سال 18ء میں زرِ وسیع کی رسد پر خالص ملکی اثاثوں کے توسیعی اثرات بینکاری شعبے کے بیرونی اثاثوں میں کمی کی وجہ سے جزوا زائل ہوگئے۔

بالخصوص، مالی سال 18ء میں یکم جولائی تا 18 مئی کے دوران بینکاری شعبے کے خالص بیرونی اثاثوں میں 600 ارب روپے کی کمی ہوئی جو بیرونی شعبے کی پیش رفتوں پر زری اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ بیرونی شعبے میں جاری حسابات کا خسارہ مالی سال 18ء کے پہلے دس ماہ کے دوران بڑھ کر 14.0 ارب ڈالر ہو گیا جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے دوران ہونے والے خسارے کی سطح کا ڈیڑھ گنا ہے۔

برآمدات میں مستحکم بحالی (جولائی تا اپریل مالی سال 18ء کے دوران 13.3 فیصد سال بسال نمو) اور کارکنوں کی ترسیلات ِ زرمیں معتدل اضافے 3.9 فیصد سال بسال نمو کے باوجود اضافی اقتصادی سرگرمیوں میں معاونت کی غرض سے بڑھتی ہوئی درآمدات اور تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے نے جاری حسابات کے خسارے کو بلند رکھا ہے۔ مالی سال 18ء کے دوران متوقع کافی رقوم کی غیر موجودگی کے باعث جاری حسابات کے بلند خسارے کا جزوی بندوبست ملک کے اپنے وسائل سے کیا گیا۔

اس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے سیال ذخائر 18 مئی 2018ء تک 5.8 ارب ڈالر کی خالص کمی واقع ہونے سی10.3 ارب ڈالر رہ گئے۔ بیرونی شعبے میں بڑھتے ہوئے دباو کی عکاسی اس بات سے ہوتی ہے کہ 24 مئی 2018ء تک پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 9.3 فیصد گر چکی ہے۔ جاری حسابات کے موجودہ بلند خسارے کو کچھ عرصے تک مستحکم رکھنے کے لیے بنیادی انحصار اس بات پر ہے کہ مالی رقوم حاصل ہو جائیں اور مزید اکٹھی کی جائیں۔

ملک کی مسابقتی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ساختی اصلاحات کی شدید ضرورت ہے تاکہ توازنِ ادائیگی کا وسط سے طویل مدتی استحکام ممکن بنایا جائے۔ مذکورہ بالا بحث اور حالات کی روشنی میں زری پالیسی کمیٹی نے پیر 28 مئی 2018ء سے پالیسی ریٹ کو 50 بی پی ایس بڑھا کر 6.50 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔