لاہور ہائیکورٹ بارکے ممبر شپ فارم میں تبدیلیاں، جعلی لائسنس پر ممبر شپ حاصل کرنے والے ممبران اپنی رکنیت منسوخ کروائیں، جنرل ہاؤس کے اجلاس میں فیصلہ

پیر 9 جولائی 2018 20:09

لاہور۔9 جولائی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 جولائی2018ء) لاہور ہائیکورٹ بار کے جنرل ہاؤس نے ممبر شپ کے حصول کے طریقہ کار کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ممبر شپ فارم میں تبدیلیاں کی ہیں جس کے تحت ممبر شپ حاصل کرنے والے اور تجویز کنندہ وتائید کنندہ کے قومی شناختی کارڈ اور پریکٹسنگ لائسنس کی کاپیاں لف کرنی لازم قرار دی گئی ہیں، نیز جنرل ہائوس نے انتباہ کیا ہے کہ ایسے تمام وکلاء جنہوں نے جعلی لائسنس پر ممبر شپ حاصل کی ان کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ بار کی ممبر شپ اور پنجاب بار کونسل سے لائسنس منسوخ کرا دیں۔

یہ رعایت 15دن کیلئے ہے اس کے بعد قانون کے مطابق عمل درآمد کیا جائے گا۔ سوموار کو لاہور ہائیکورٹ بار کے جنرل ہائو س کا اجلاس انوارالحق پنوںصدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں چوہدری نور سمند خان نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن،حسن اقبال وڑائچ، سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور اعظم نذیر تارڑ ممبر پاکستان بار کونسل کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

اجلاس میں بار رولزترامیم اور الیکٹورل ریفارمز کمیٹی کی مرتب کردہ سفارشات، پنجاب بار کونسل کے جعلی لائسنس پر حاصل کی گئی ممبر شپ کی منسوخی /اندراج مقدمہ اور معزز ممبران لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیلئے ہائوسنگ سوسائٹی کے قیام سے متعلق امور پر غور و خوض کرنے کیلئے طلب کیا گیا۔ حسن اقبال وڑائچ، سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہدیداران نے ممبر شپ کے حصول کے طریقہ کار کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ممبر شپ فارم میں تبدیلیاں کی ہیں۔

جس کے تحت ممبر شپ حاصل کرنے والے اور تجویز کنندہ وتائید کنندہ کے قومی شناختی کارڈ اور پریکٹسنگ لائسنس کی کاپیاں لف کرنی لازم قرار دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے پنجاب بار کونسل کے تعاون سے وکلاء کے لائسنس چیک کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور جعلی وکلاء کی نشاندہی ہوئی۔ ایسے جعلی وکلاء کو وضاحت کیلئے کافی وقت دیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں آکر وضاحت کریں لیکن وہ نہ آئے جسکی وجہ سے بار نے انکے خلاف مقدمات کا اندراج کرا دیا ہے۔

مزید برآں ایسے تمام وکلاء جنہوں نے جعلی لائسنس پر ممبر شپ حاصل کی ان کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ بار کی ممبر شپ اور پنجاب بار کونسل سے لائسنس منسوخ کرا دیں۔ یہ رعایت 15دن کیلئے ہے اس کے بعد قانون کے مطابق عمل درآمد کیا جائے گا۔ انہوں نے ہائوس کو بتایا کہ2010ئمیں وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبران کیلئے ہائوسنگ سوسائٹی کے قیام کا اعلان کیا کہ جس پر تاحال عملدرآمد نہ ہو سکا۔

انہوں نے ہا?سنگ سوسائٹی کے قیام کے حوالہ سے ورکنگ کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تاکہ کمیٹی کی سفارشات کے تحت اس معاملہ کو آگے بڑھایا جا سکے انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے رولز میں 1989ء سے کوئی ترمیم نہ کی گئی ہے حالانکہ ممبران کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے ہائوس کو بتایا کہ موجودہ عہدیداران نے راجہ جاوید اقبال ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی سربراہی میں شفقت محمود چوہان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ وسابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور پیر مسعود چشتی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ و سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن پر مشتمل رولز امینڈمنٹ کمیٹی تشکیل دی جنہوں نے انتہائی جانفشانی اور عرق ریزی سے رولز مرتب کئے جس کیلئے ہم انکے انتہائی مشکور ہیں۔

حسن اقبال وڑائچ سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے شفقت محمود چوہان سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کو خطاب کی دعوت دی۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بار کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارشات مرتب کیں اس میں کسی ممبر کا کوئی ذاتی ایجنڈا شامل نہ ہے۔حسن اقبال وڑائچ سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے نے پیرا وائز ترامیم ہاؤس کے سامنے پیش کیں ۔

اس موقع پرآذر لطیف خان ایڈووکیٹ نے ہائوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک رول نمبر28پارٹIIمیں الیکشن لڑنے کی اہلیت کا تعلق ہے اسمیں پچھلے تین سال کے (ہر سال کی15وکالت نامہ) تصدیق شدہ فائل کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے جیسا وکیل جو کبھی لوئر کورٹ، کبھی بیرون لاہور عدالتوں میں پیش ہوتا رہتا ہے اس کے مذکورہ شق پر عمل کرنا مشکل ہے۔

یہ وہی وکیل کر سکتا ہے جسے ٹائوٹس کیسزلا کر دیتے ہیں۔حسن اقبال وڑائچ سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور ہائوس میں موجود تمام ممبران نے آذر لطیف خان کے ٹائوٹ کے الفاظ پر روز احتجاج کیا۔ حسن اقبال وڑائچ سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے رائے شماری کیلئے ترامیم ہائوس کے سامنے پیش کیں۔ تمام ترامیم مکمل اتفاق رائے سے منظور کر لی گئیں البتہ رول 28کی بابت کچھ اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا کہ پریکٹس کی میعاداور وکالت ناموں والی شرائط سخت ہیں۔ مذکورہ اعتراض کو اس تجویز کے ساتھ نمٹایا گیا کہ اس بابت جو معیار لیگل پریکٹیشنر اور بار کونسلز ایکٹ1973ئکے تابع ہے اسی کے مطابق امیدواران کی اہلیت کو پرکھا جائیگا۔