سپریم کورٹ کی سیکرٹری دفاع کو فوجی افسران کی دوہری شہریت کا پتہ لگانے کی ہدایت ، قانون کے مطابق کوئی بھی سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کے بعد دوسال تک بیرون ملک ملازمت اختیار نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ

بدھ 1 اگست 2018 20:19

سپریم کورٹ کی سیکرٹری دفاع کو فوجی افسران کی دوہری شہریت کا پتہ لگانے ..
اسلام آباد ۔ یکم اگست (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 اگست2018ء) سپریم کورٹ نے دوہری شہریت سے متعلق کیس میں سیکرٹری دفاع کو فوجی افسران کی دوہری شہریت کا پتہ لگانے کی ہدایت کی ہے،عدالت عالیہ نے واضح کیا ہے کہ قانون کے مطابق کوئی بھی سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کے بعد دوسال تک بیرون ملک ملازمت اختیار نہیں کرسکتا، عدالت نے دوہری شہریت رکھنے والے 27 افسران کونوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت7 اگست تک ملتوی کردی ہے ۔

بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطابندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل تین رکنی بنچ نے دوہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت کی ، اس موقع پراٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے پیش ہوکرعدالت کوبتایا کہ ایف آئی اے نے دوہری شہریت رکھنے والے افسران کے بارے میں ایک اضافی فہرست عدالت میں جمع کرادی ہے جس کے مطابق اس وقت 27 ایسے سرکاری افسران ہیں جو دوہری شہریت کے حامل ہیں، کیس کی پہلے سماعت کے موقع پرعدالت نے کہا تھاکہ ایک پاکستانی سفیر بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں ،لیکن چیک کرنے پرپتہ چلا کہ مذکورہ سفیر دوہری شہریت نہیں رکھتے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید بتایاکہ ایف آئی اے نے دوہری شہریت رکھنے والے متعدد افسران کاپتہ لگالیا ہے یہاں ایسے افسر بھی ہیں جن کے رشتہ دار دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ہمیں سرکاری افسران کے رشتہ داروں کی دوہری شہریت پر بھی تحفظات ہیں، متعدد سرکاری افسران کی بیویاں بھی دوہری شہریت رکھتی ہیں۔ ان کاکہنا تھاکہ دوہری شہریت کے بارے میںکچھ افسران نے خود بتایا اور کچھ افسران کو ایف آئی اے نے شناخت کرلیا۔

عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان اور روس دوہری شہریت کی اجازت نہیں دیتے۔ میں سمجھتاہوں کہ دوہری شہریت رکھنے والوں کو سرکاری ملازم نہیں ہونا چاہئیے ،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مسلح افواج میں دوہری شہریت کے حامل افسران کے حوالے سے استفسارکیاجس پرعدالت میں موجود سیکرٹری دفاع ضمیر الحسن شاہ نے عدالت کوبتایا کہ آرمڈ فورسزکے افسران بیرون ملک شادیاں متعلقہ فورس کے سربراہ کی اجازت سے کرسکتے ہیں، تاہم اگر اس حوالے سے کوئی اجازت نہیں لیتا تو ان کو سخت سزا دی جاتی ہے۔

سیکرٹری دفاع نے عدالت کومزید بتایا کہ دوہری شہریت رکھنے والے شخص کو آرمڈ فورسز میں ملازمت نہیں دی جاتی، آرمڈ فورسز کیلئے دوہری شہریت والی بات ملازمت کے اشتہار میں بھی واضح طورپر لکھی جاتی ہے، لیکن بھرتی کے عمل میں اگر د وہری شہریت کاحامل کوئی فرد سامنے آ جائے تو اسے اپنی دوسری شہریت چھوڑنا پڑتی ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا سرکاری ملازمین کے حوالے سے طریقہ کار یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی صورت میں ان پر دوسال تک کچھ پابندیا ں ہوتی ہیں جس دوران وہ بیرون ملک ملازمت نہیں کرسکتا، لیکن آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ اپنی ریٹاثرمنٹ کے مخص چند ماہ بعد بیرون ملک چلے گئے، اور وہاں ملازمت شروع کردی،ہمیں بتایا جائے کہ اس نے ریٹائرمنٹ کے فورًا بعد کس طرح ملازمت اختیار کرلی ، اسی طرح ایک سابق آرمی چیف نے بھی تھوڑے دنوں بعد بیرون ملک ملازمت اختیار کرلی ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کیا قانون کا اطلاق فوجی افسران پر نہیں ہوتا، جس پرسیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ میری اطلاعات کے مطابق دونوں افسران حکومت سے این او سی لے کر باہر گئے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہناتھا کہ حساس اداروں کے اعلیٰ افسران اور سربراہان کے پاس توزیادہ حساس معلومات ہوتی ہیں، ایسے لوگوں کا توزیادہ تخفظ کرنا چاہیے۔ جس پرسیکرٹری دفاع نے کہا کہ بیرون ملک ملازمت کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے ان افسران کو اجازت دی گئی تھی ، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کا کوئی بھی ملازم ریٹائرمنٹ کے 2 سال تک بیرون ملک ملازمت نہیں کرسکتا، ان افراد کو کابینہ سے اجازت لیکر بیرون ملک نوکریاں کرنی چاہیے تھیں، عدالت اس امرکاجائزہ لے گی کہ یہ اجازت کس طرح دی گئی، اور اس کی نوعیت اور معیاد کیا تھا آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سب لکھ کر عدالت کودیدیں ، اور اپنے طور پر چیک کرکے بتائیں کے آرمڈفورسز میں کوئی دوہری شہریت کا حامل افسر تو موجود نہیں ، بعدازاں مزید سماعت 7 اگست تک ملتوی کردی۔