امریکا نے ترکی کے دو وزراء پر پادری کو زیر حراست رکھنے پر پابندیاں عاید کردیں

پادری کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ چلانے پر کشیدگی میں اضافہ،ترکی کا بھی جواب دینے کا اعلان

جمعرات 2 اگست 2018 13:02

انقرہ /واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 اگست2018ء) امریکا اور ترکی کے درمیان امریکی شہری ایک عیسائی پادری کے خلاف دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات میں مقدمہ چلانے اور اس کو زیر حراست رکھنے کے معاملے پر سفارتی کشیدگی میں شدت آگئی ہے اور امریکی محکمہ خزانہ نے ترکی کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔

میڈیارپورٹس کیک مطابق معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے دونوں رکن ممالک کے درمیان وجہ نزاع امریکی پادری اینڈریو کریگ برونسن اس وقت ترکی کے شہر ازمیر میں اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔ ان کے خلاف دہشت گردی کی حمایت اور جاسوسی کے الزامات میں مقدمہ چلایا جارہا ہے اور یہ الزامات ثابت ہونے پر انھیں 35 سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

میڈیاروپرٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان سارہ سینڈرس نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ ( پادری) ترک حکومت کی غیر منصفانہ اور بلاجواز توجہ کا شکار ہیں ۔ترجمان نے کہا کہ ترکی کے وزیر انصاف عبدالحمید گل اور وزیر داخلہ سلیمان سوئلو کو پچاس سالہ پادری برونسن کو زیر حراست رکھنے میں کردار پر پابندیوں کا ہدف بنایا جارہا ہے۔

امریکی وزیر خزانہ اسٹوںن نوشین نے ایک بیان میں کہا کہ پادری برونسن کی غیر منصفانہ حراست اور ترک حکام کی جانب سے ان کے خلاف مسلسل ستم سادہ لفظوں میں بالکل بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ بات کئی مرتبہ واضح کرچکے ہیں اور امریکا یہ توقع کرتا ہے کہ ترکی پادری کو فوری طور پر رہا کردے گا۔پادری برونسن بحیرہ ایجئین کے کنارے واقع شہر ازمیر میں عیسائیوں کے پروٹیسٹنٹ فرقے کے ایک چرچ کے نگران تھے۔

وہ امریکی ریاست شمالی کیرو لینا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ترک حکام نے انھیں دوسال تک جیل میں قید رکھنے کے بعد گذشتہ ہفتے ہی ازمیر میں ان کے گھر منتقل کرکے نظربند کردیا تھا لیکن ان کی ملک سے باہر جانے کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔امریکی پادری کو اکتوبر 2016ء میں ترکی میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس وقت صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں ملوث سرکاری ملازمین اور افراد کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جارہا تھا۔

ترک حکام نے پادری پر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کی) اور خودساختہ جلاوطن عالم فتح اللہ گولن کی حمایت کا الزام عاید کیا تھا۔ترکی اور بعض یورپی ممالک نے پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔امریکا کا یہ موقف ہے کہ ترکی کے پاس پادری کے خلاف عاید کردہ الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں جبکہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن یہ واضح کرچکے ہیں کہ انھیں پابندیوں سے ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے اور نہ زیر اثر لایا جاسکتا ہے۔تاہم وہ اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ عیسائی پادری کا امریکی ریاست پنسلوینیا میں مقیم فتح اللہ گولن سے تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔