کوئٹہ، اپنے والدین کے نقش قدم پر چل کر صوبے میں قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے، خودکش حملے شہید ہونیوالے وکلاء کے بچوں کا عزم

بدھ 8 اگست 2018 20:08

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 اگست2018ء) بلوچستان میں سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونیوالے خودکش حملے شہید ہونیوالے وکلاء کے بچوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والدین کے نقش قدم پر چل کر صوبے میں قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے تا ہم سانحہ8 اگست میں زخمی ہونیوالے وکلاء کا کہنا ہے کہ سانحہ کوئٹہ سے ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک پورا نہیں ہواعندلیب آٹھ اگست سانحہ کی نہ صرف عینی شاہد ہیں بلکہ وہ اس واقعے میں خود بھی شدید زخمی ہوئی تھیںوہ میری یادوں کا حصہ ہیں وہ میرے ساتھ ہیں ان کو نہیں بھلایا جاسکتاایڈووکیٹ عندلیب قیصرانی جب بھی سانحہ آٹھ اگست میں بچھڑنے والے ساتھی وکلا کو یاد کرتی ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیںعندلیب آٹھ اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خود کش حملے کی نہ صرف عینی شاہد ہیں بلکہ وہ اس واقعے میں خود بھی شدید زخمی ہوئی تھیںاس سانحہ میں 56 وکلا سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

زخمی ہونے کے باعث اب عندلیب قیصرانی کے لیے چھڑی کے سہارے کے بغیر چلنا مشکل ہے جب بھی ان کے سامنے اس سانحہ کا ذکر ہوتا ہے تو وہ یہ دعا کرتی ہیں کہ اللہ کسی کو بھی ایسا سانحہ نہ دکھائے میں انسانوں اور چرند پرند سب کے لیے دعا کرتی ہوں کہ اللہ کسی کو ایسے حالات نہ دکھائے جس میں ان کے پیارے ان سے بچھڑ جائیںعندلیب کی طرح جو لوگ اس سانحہ میں زخمی ہوئے تھے وہ زیادہ تر وکیل تھے اس واقعے میں زخمی ہونے کے باعث عندلیب قیصرانی کو پہلے کے مقابلے میں چلنے پھرنے میں مشکل تو پیش آتی ہے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔

وہ ہر روز عدالت آتی ہیں اور مقدمات کی پیروی کرتی ہیںاس خود کش حملے میں وکلا کو نشانہ بنایا گیا جس کے حوالے سے منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پہلے ایک وکیل رہنما بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور جب ان پر حملے کی خبر سن کر وکلا کی بڑی تعداد سول ہسپتال پہنچ گئی تو وہاں پہلے سے موجود ایک خود کش حملہ آور نے ان کو نشانہ بنایااس خود کش حملے میں وکلا رہنماں کی بھی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی تھی جن میں ایڈووکیٹ باز محمد کاکڑ بھی شامل تھے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وکلا تحریک میں بھرپور شرکت کے باعث باز محمد کاکڑ جدوجہد کی علامت بن گئے تھے۔

باز محمد کاکڑ کی ہلاکت کے ڈھائی ماہ بعد ان کے ہاں دوسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام شیرباز رکھ دیا گیا آریان کی طرح اس سانحہ نے کئی بچوں سے ان کا سہارا چھین لیا ان کے بڑے بیٹے آریان کی بھی عمر کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ والد کی یاد آتی ہے تو وہ غمگین ہوجاتے ہیں لیکن وہ جب اپنے چھوٹے بھائی شیر باز کو دیکھتے ہیں تو اس سے والد کے بچھڑنے کا غم کسی حد تک کم ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی طرح وکیل بنیں گے آریان کی طرح اس سانحہ نے کئی بچوں سے ان کا سہارا چھین لیااس سانحہ میں ہلاک ہونے والے وکلا میں سے اکثر کا تعلق متوسط اور غریب گھرانوں سے تھاوکیل رہنما شاہ محمد جتوئی کا کہنا ہے کہ سانحہ سے متاثرہ خاندان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیںدیگر مشکلات کے علاوہ اس سانحہ میں جان کی بازی ہارنے والے وکلا کے بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوئی۔

اگرچہ حکومت نے ہلاک ہونے والے وکلا کے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا لیکن وکلا رہنما اس بات پر شاکی ہیں کہ اس وعدے پر زیادہ عملدرآمد نہیں ہوااس خود کش حملے میں پڑھے لکھے افراد کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کے باعث بلوچستان کے سیاسی حلقوں نے اس سانحے کو سنہ 1935 کے زلزلے کے بعد نقصان کے حوالے سے دوسرا بڑا واقعہ قرار دیا تھاوکلا کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے باعث بلوچستان میں عدالتی نظام بھی متاثر ہواایڈووکیٹ اور انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ اس سانحہ میں وکلا کی کریم ہلاک ہوئی جس کے باعث عدالتی نظام میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہواان کا کہنا ہے کہ وکلا کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے باعث سائلین متاثر ہو رہے ہیںجلیلہ حیدر کے مطابق اس سانحہ کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی جو رپورٹ تھی اس پر عملدرآمد نہیں ہواان کا کہنا ہے کہ اس سانحہ کے جو اصل ذمہ دار تھے ان کو بے نقاب کرنا اور ان کو پکڑنا ضروری تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جس کے باعث بلوچستان میں پروفیشنلز ایک خوف میں مبتلا ہیںان کا کہنا تھا کہ وکلا کو جس ظلم کا نشانہ بنایا گیا اس کا ازالہ نہیں ہوا۔

میرے خیال میں صرف پیسہ دینا کسی ظلم اور ناانصافی کا ازالہ نہیں ہوتاوہ کہتی ہیں کہ ازالہ اس وقت ہوگا جب اس حوالے سے عدالتی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد ہوگا اور اس سانحے کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرکے پکڑا جائے گاتاہم سابق حکومت میں حکام نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس سانحے کے جو بھی ذمہ دار تھے وہ سکیورٹی فورسز کی کاروائیوں میں مارے گئے حکام کے مطابق اس نوعیت کے واقعات میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے لواحقین کے مقابلے میں سانحہ آٹھ اگست میں ہلاک ہونے والے وکلا کے لواحقین کو نہ صرف زیادہ معاوضہ دیا گیا بلکہ اس حوالے سے وکلا تنظیموں کے جو مطالبات تھے ان پر بھی زیادہ سے زیادہ عملدرآمد کیا گیا۔