حنیف عبا سی کی سزا کے خلاف دائر اپیل میں اے این ایف کو نوٹس جاری

منگل 25 ستمبر 2018 18:32

حنیف عبا سی کی سزا کے خلاف دائر اپیل میں اے این ایف کو نوٹس جاری
راولپنڈی 25ستمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2018ء) عدالت نے ایفی ڈرین کیمیکل کوٹہ کیس میںسابق رکن قومی اسمبلی محمد حنیف عبا سی کی سزا کے خلاف دائر اپیل میں اے این ایف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔عدالت عالیہ راولپنڈی کے ڈویژن بنچ کے جسٹس عباد الرحمان لودھی اور جسٹس شاہدمبین پر مشتمل ڈویژن بنچ نے منگل کو ایفی ڈرین کیس میںسابق رکن قومی اسمبلی محمد حنیف عبا سی کی سزا کے خلاف دائر اپیل میں اے این ایف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2ہفتے میں جواب طلب کر لیا جبکہ طبی بنیادوں پر حنیف عباسی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست کو بھی اپیل کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے آئندہ تاریخ تک سماعت ملتوی کر دی ، ایفی ڈرین کوٹہ کیس کی ابتدائی ایف آئی آر میں ملزم نامزد ہو کر بعد ازاں وعدہ معاف گواہ بننے والی گریز فارما میں حنیف عباسی کی پارٹنر رضیہ زاہد بختاوری سمیت 3درخواست گزاروں کی اپیل پر اے این ایف کی جانب سے پیش کیا گیا نیا چالان بھی معطل کر دیا گیا ۔

(جاری ہے)

سماعت کے موقع پر حنیف عباسی کے وکیل تنویر اقبال ایڈووکیٹ عدالت میں موجود تھے۔واضح رہے کہ حنیف عباسی نے ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں انسداد منشیات راولپنڈی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کو عدالت عالیہ راولپنڈی بنچ میں چیلنج کررکھا ہے۔ تنویر اقبال خان ایڈوکیٹ کے ذریعے نارکوٹکس ایکٹ1997کی سیکشن 48اور تعزیرات پاکستان کی سیکشن 410کے تحت دائراپیل میںموقف اختیار کیا ہے کہ اے این ایف پولیس نے 21جولائی2012نارکوٹکس ایکٹ کی سیکشن 9-Cاور14،15کے تحت مقدمہ نمبر41درج کیا تھا جس میں حنیف عباسی کے ساتھ رضیہ زاہد بختاوری کو ملزم نامزد کیا گیا تھا بعد ازاں رضیہ بختاوری کو گواہوں کی فہرست میں شامل کر کے 7دیگر افراد کو ملزم نامزد کر دیا گیا تھا مقدمہ کے اندراج کا علم ہونے پر درخواست گزار عبوری ضمانت کرانے کے بعد انوسٹی گیشن میں شامل ہوا بعد ازاں ہائی کورٹ نے عبوری ضمانت کنفرم کر دی ضمانت منسوخی کے خلاف دائر اپیل بھی عدالت نے خارج کر دی اس دوران مقدمہ میں شامل بعض ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا جنہوں نے ضمانت بعد از گرفتاری کروالی انوسٹی گیشن کے بعد ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی سیکشن 173کے تحت رپورٹ مجاز عدالت میں داخل کروائی گئی جس پر عدالت نے 29اکتوبر2014کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی دوران ٹرائل اے این ایف کی جانب سی36گواہ پیش کر کے تعزیرات پاکستان کی سیکشن 342کے تحت بیان ریکارڈ کئے درخواست گزار پر الزام ہے کہ اس نے گریز فارما سیوٹیکل کے نام پر ایفی درین کوٹہ حاصل کر کے اسے ادویات سازی میں استعمال کرنے کی بجائے سمگل کر دیا اور درخواست گزار نے مروجہ قوانین کے مطابق ریکارڈ مرتب نہیں کیا حالانکہ دوران ٹرائل پراسیکوشن اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکی اپیل میں ماتحت عدالت کے فیصلے کے پیرا گراف نمبر55اور56کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح تحقیقات اور ٹرائل کے دوران کسی قسم کے ابہام کا فائدہ درخواست گزار کو ملنا چاہئے تھا لیکن عدالت کی جانب سے شک کا فائدہ درخواست گزار کو دینے کی بجائے صوابدیدی اور خود ساختہ وجوہات کی بنا پر درخواست گزار کو سزا سنائی گئی اس طرح عدالت نے پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کئے جانے والے شواہد کی بجائے تصوراتی بنیادوں پر فیصلہ جاری کیا اور عدالت نے حقائق کے برعکس 137کلو گرام ایفی ڈرین کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے دیا جبکہ فیصلے کے پیرا گراف نمبر47کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دستاویزات سے ثابت ہے کہ گریز فارما نے ڈی-ایزم (De-Asm) گولیاں بنانے کے بعد عرفات ٹریڈرز کراچی ،اے بی فارما اور حماس فارما راولپنڈی کو سپلائی کیں تحقیقات کے دوران اے بی فارما اور حماس فارمانے نہ صرف ادویات کی سپلائی کو تسلیم کیا بلکہ تمام دستیاب ریکارڈ بھی فراہم کیا جبکہ گواہ نمبر7راول ٹائون کے سابق ڈرگ انسپکٹر نوید انور نے نے بوہڑ بازار راولپنڈی سے ڈی ایزم گولیوں کے نمونے لیبارٹری تجزیئے کے لئے بھجوائے جو معیاری ثابت ہوئے جس کی تصدیق بعد ازاں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری لاہور نے بھی کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ پراسیکوشن درخواست گزار کے خلاف تمام الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نہ کر کے درخواست گزار کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا۔

اپیل میں انسداد منشیات راولپنڈی کی عدالت کے فیصلے کو متنازعہ اور جانبداری پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پراسیکوشن ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار کے خلاف نارکوٹکس ایکٹ کے تحت کوئی الزام ثابت نہیں ہو تا جبکہ نارکوٹکس ایکٹ کے شیڈول میںایفی ڈرین کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے اس طرح قانون میں واضح نہ ہونے کے باوجود حقیقت پسندی کو نظر انداز کیا گیا اپیل میںکہا گیا ہے کہ درخواست گزار مکمل طور پر بے گناہ ہے اوردرخواست گزار کے خلاف تحقیقات اور ٹرائل کے دوران نارکوٹکس ایکٹ(CNSA)1997کے تحت کوئی بھی مواد یا شواہد پیش نہیں کئے جا سکے اور محض گمان اور امکانات کے تحت درخواست گزار کو سزا سنائی گئی سزا کی معطلی کے لئے دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو دی جانے والی سزا خلاف قانون حقائق کے منافی ہے دوران ٹرائل جب درخواست ضمانت پر تھا تو اس دوران بھی ضمانت کے غلط استعمال کا کوئی الزام درخواست گزار پر نہیں ہے درخواست میں کہا گیا ہے کہ عد التی فیصلے تک ماتحت عدالت کا فیصلہ معطل کر کے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جائے یاد رہے کہ انداد منشیات راولپنڈی کی خصوصی عدالت نی21جولائی 2018کو نارکوٹکس ایکٹ1997کی سیکشن 9-Cاور14,15کے تحت عمر قید ار10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی عدم ادائیگی جرمانہ پر حنیف عباسی کو مزید2سال قید کی سزا بھگتنا ہو گی جبکہ سیکشن 16کے تحت حنیف عباسی کو 1سال قیداور5ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں حنیف عباسی کو مزید1ماہ قید بھگتنا ہو گی۔