قومی سطح پر نیشنل اکیڈمی برائے ہائر ایجوکیشن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے،ڈا کٹر طا رق بنوری

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے تربیت پانیوالے ماہرین نے 57مسلم ممالک کیلئے زرعی ترقی کا ایسا کامیاب ماڈل متعارف کروایا ہے،دوسرے مسلم ممالک کی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرکے معاشی ترقی کے ثمرات سمیٹنے کیلئے بروئے کار لایا جائے گا،چیئر مین ہائر ایجو کیشن کمیشن

بدھ 26 ستمبر 2018 17:00

قومی سطح پر نیشنل اکیڈمی برائے ہائر ایجوکیشن کا قیام عمل میں لایا جا ..
فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2018ء) ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طار ق بنوری نے کہا ہے کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے تربیت پانیوالے ماہرین نے 57مسلم ممالک کیلئے زرعی ترقی کا ایسا کامیاب ماڈل متعارف کروایا ہے جسے دوسرے مسلم ممالک کی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرکے معاشی ترقی کے ثمرات سمیٹنے کیلئے بروئے کار لایا جائے گا۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نیو سینٹ ہال میں وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا کے ہمراہ جامعہ کے تدریسی سٹاف سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ قومی سطح پر نیشنل اکیڈمی برائے ہائر ایجوکیشن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نئے تعینات ہونے والے اساتذہ کی ہمہ جہت تربیت کو یقینی بناتے ہوئے ان میںموثرپیشہ وارانہ ابلاغیاتی مہارتوں سمیت ایسی لیڈرشپ کوالٹی پیدا کی جائے گی کہ وہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کے طو رپرمشکل حالات اور دبائو میں بھی کامیابی سے اپنے اہداف کے مطابق خدمات سرانجام دے سکیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مجوزہ اکیڈمی کے ذریعے اعلیٰ تعلیم سے وابستہ اساتذہ میں تعلیم و تحقیق کے ساتھ ساتھ وہ تما م اوصاف اور صلاحیت پیدا کی جائے گی جسے بروئے کار لاکر وہ نہ صرف اچھے اور مثالی استاد بن سکیں بلکہ نوجوان میں وہ اپنے کردار و عمل کی بنیاد پر ایک لیڈر کے طور پر اپنی پہچان بنا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بدقسمتی سے ہماری جامعات میں پڑھائے جانیوالے علوم معاشرتی وصنعتی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں جس کی وجہ سے گریجوایٹ ہونیوالے ہزاروں نوجوانوں کیلئے ملازمت کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قومی سطح پر 15ایلیٹ جامعات کا ایک ایسا پول ترتیب دے رہے ہیں جنہیں دوسری جامعات کے مقابلہ میں زیادہ فنڈنگ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ معاملات میں مکمل طو رپر خود مختار بنایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ جامعات میں زیرتعلیم طلبہ کا ڈیٹا بینک نادرا کی طرز پر ترتیب دیا جائے گا جس میں ان کی تمام معلومات کی بنیاد پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی ڈگریوں کی آن لائن تصدیق ممکن ہوسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامی سٹاف کی بھی جدید خطوط اور عالمی رجحانات کے مطابق تربیت کا ارادہ رکھتا ہے جس کیلئے جلدپروگرام کا آغاز کر دیا جائیگا۔انہوں نے کہاکہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین کی وجہ سے ملک میں ہونیوالی زرعی ترقی کوایک کامیاب ماڈل کے طو رپر تمام 57اسلامی ممالک میںمثال کے طو رپر پیش کیا جا سکتا ہے اور وہ چاہیں گے کہ دوسرے مسلم ممالک میں بھی زرعی ترقی کی داغ بیل ڈالنے کیلئے یونیورسٹی ماہرین کی خدمات پیش کر سکیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ یونیورسٹی میں قائم سنٹر فار ایکسی لینس ایک قومی ادارہ ہے جسے مزید وسائل فراہم کرکے ایک متحرک اور مفیدسنٹر بنایا جائے گا۔ ڈاکٹر بنوری نے کہا کہ جامعات میں بنیادی مسئلہ کوالٹی ایجوکیشن کا ہے جس میں بہتری کیلئے کثیر الجہت پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند تین دہائیاں قبل تک کالج اور یونیورسٹی میں زیرتعلیم نوجوانوں کی تعداد بہت محدود تھی اور معاشرتی طور پر بھی تعلیم پر اتنی زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی تاہم آج ملک میں اعلیٰ تعلیم کی دستیاب سہولیات اور تعلیمی وظائف و انڈومنٹس کی وجہ سے ایک عام آدمی کا بچہ بھی جامعات میں زیرتعلیم ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ جامعات میں تعلیم و تحقیق کے معیار میں بہتری کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے بیشتر یونیورسٹی گریجوایٹس میں کتب بینی کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے جی آر ای ٹیسٹ میںکامیاب نہیں ہوپاتے جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں ہمارے طلبہ کی تعداد دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہے جبکہ سی ایس ایس امتحانات میں کامیابی کا تناسب بھی پانچ فیصد سے کم ہوناافسوسناک پہلو ہے۔

ڈاکٹر طارق بنوری نے یونیورسٹی انتظامیہ پر زور دیا کہ اپنے وسائل اور سہولیات کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے ڈگری پروگرامزپراز سرنوغور کریں اور اتنے ہی طلبہ کو داخلہ دیں جن کی تعلیمی و تحقیقی ضروریات پوری کرسکیں کیونکہ ماضی میں بڑھنے والی سٹوڈنٹس انرول منٹ سے اُستاد و طالب علم کا مثالی تناسب بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہا کہ جامعہ میں شفافیت‘ میرٹ اور صلاحیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک وائس چانسلرکواختیارات کی مرکزیت کے بجائے متعلقین کی آراء اور فیڈبیک کی روشنی میں تعلیمی و تحقیقی پیش رفت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ طلبہ‘ اساتذہ اور سٹاف کیلئے نئے پروگرامز اور آئیڈیازپر کام کرناچاہئے تاکہ یونیورسٹی صحیح معنوں میں ایک دانش گاہ کا درجہ حاصل کر سکے۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چیئرمین کمیشن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گااور وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے دوسری جامعات کیلئے مثالی گورننس سسٹم متعارف کے آرزومند ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبہ کے داخلوں سے ملازمین کی تعیناتی و ترقی تک تمام اُمور میںسفارشی کلچر کا ہاتھ روک کر صرف میرٹ کو یقینی بنایا جا رہا ہے جبکہ طویل عرصہ سے انتظامی عہدوں پر تعینات تدریسی سٹاف کی خدمات واپس ان کے شعبہ جات کے سپرد کر کے پروفیشنلزم کو رواج دیا جا رہا ہے۔تقریب کی نقابت کے فرائض ڈائریکٹر اورک پروفیسرڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر نے ادا کئے۔