پالیسی ریٹ 1فیصدمزید اضافہ کے بعد8.5فیصدہونے سے معاشی سرگرمیاں محدود ہونگی،میاں زاہد حسین

پیر 1 اکتوبر 2018 16:56

پالیسی ریٹ 1فیصدمزید اضافہ کے بعد8.5فیصدہونے سے معاشی سرگرمیاں محدود ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 اکتوبر2018ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ رواں سال جنوری میں پالیسی ریٹ میں 25بی پی ایس کا اضافہ کرکے 6فیصد کردیا گیاتھا،جو مئی 2018میں 50بی پی ایس اضافہ سے 6.5فیصدمقرر ہوا۔

جولائی 2018میں پالیسی ریٹ میں100بی پی ایس مزید اضافہ کرکے 7.5فیصد کیا گیا اور یکم اکتوبر سے 1فیصد کے مزید اضافہ سے پالیسی ریٹ 8.5فیصد کیا گیا۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میںکہا کہ پالیسی ریٹ میں روز افزوں اضافہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں محدود ہورہی ہیں۔مہنگائی میں ہوشربا اضافہ عوام کی قوت خرید پر براہ راست اثر انداز ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پالیسی ریٹ میں اضافہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے پیش نظر کیا گیالیکن پالیسی ریٹ میں اضافہ کے دیگر اثرات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت شدید دبائو کا شکار ہیں ، جس کو بہتر کرنے کے لئے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے، شرح سود میں اضافے سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی، لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوگی اور معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہونگی۔

اگرچہ رواںمالی سال کے پہلے دو ماہ میں ترسیلات زر میں 13.5فیصد اور برآمدات میں 5فیصداضافہ دیکھنے میں آیا لیکن تیل کی درآمدات میں اضافہ کے باعث جاری حسابات کا خسارہ 2.7ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے جو گزشتہ سال کے اس دورانیہ کے مقابلے میں 9.9فیصد زائد ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملک میں جاری معاشی بحران کے نتیجے میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی کارگردگی پر منفی اثرات مرتب ہونگے، صنعتی پیداوار اور صنعتی شعبوں کی برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہوںگی اور صنعتی ترقی کی راہ میں شدید رکاوٹ کا سامنا ہوگا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو تقریباً5فیصد رہے گی جسکا تخمینہ رواں مالی سال میں 6.2فیصد تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے روپے کی قدر میں مزید کمی کی سفارش کی خبر سامنے آنے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپیہ گزشتہ دو ماہ کے دوران اوپن مارکیٹ میں 126کی کم ترین سطح پر پہنچا ، اگر روپے کی قدر میں استحکام کی کوشش نہیں کی گئیں تو روپے کی قدر مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے بیان کے مطابق حکومت کا IMFکے وفد سے ملاقات صرف معاشی امور پر نظر ثانی کے لئے ہے اور حکومت IMFکے کسی بیل آئوٹ پروگرام کا حصہ بننے نہیں جارہی لیکن معاشی حقائق اسکے برعکس ہیں جس کے باعث کرنسی مارکیٹ اور سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہیں۔نیز ملک کو درپیش تجارتی اور جاری حسابات کے خسارے ، بیرونی قرضے اورزرمبادلہ کے ذخائر میں شدید دبائو کا سامنا ہے جس کے پیش نظر حکومت کا IMFکے ایک پروگرام کے لئے جانا ناگزیر نظر آرہا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موجودہ معاشی مسائل سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے صنعتی ، زرعی ، کاروباری اور خدمات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے مستحکم پالیسیا ں رائج کی جائے اور ملک میں جاری معاشی گومگو کی کیفیت کو ختم کیا جائے۔

متزلزل معاشی پالیسیوں کے باعث سرمایہ کاری کا ہرشعبہ متاثر ہورہا ہے ۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں حکومت نے 183ارب روپے کی اضافی آمدن کے لئے ٹیکسز میں اضافہ کیا اور گیس کی قیمتوں میں مختلف شعبوں کے لئے 10فیصد سے لیکر 57فیصد اضافہ کیا گیاجبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ یہ تمام اقدامات ملک میں مہنگائی اور کاروباری لاگت میں اضافہ کا باعث ہیں جنکی وجہ سے ایکسپورٹ بڑھنے کے امکانات معدوم ہورہے ہیں۔