Live Updates

وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی خسرو بختیار نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضوں کو قرار دیدیا

اصل مسئلہ پر توجہ نہیں دی گئی ہے ،ْ پاکستان کے اندر مربوط پاور جنریشن کی ضرورت ہے ،ْ عمران خان سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں ،ْ انشاء اللہ ہم مل کر قوم کی سمت درست کریں گے ،ْ اگر چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے تو پھر منصوبہ بندی کو مدنظر رکھنا ہوگا ،ْ مسلم لیگ (ن) نے جاری مالی سال کے لئے جو بجٹ ترتیب دیا تھا ان میں سے 450 سکیموں میں سے 343 سکیموں کی منظوری نہیں لی گئی تھی ،ْاگر تصحیح نہ ہوتی تو دو کھرب روپے لگنے تھے ،ْ سی پیک کے لئے گیم چینجر کا لفظ درست ہے ،ْدونوں ممالک کے درمیان بہترین سٹریٹجک تعلقات قائم ہیں ،ْاسمبلی میں اظہار خیال

پیر 1 اکتوبر 2018 22:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 اکتوبر2018ء) وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی خسرو بختیار نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضوں کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل مسئلہ پر توجہ نہیں دی گئی ہے ،ْ پاکستان کے اندر مربوط پاور جنریشن کی ضرورت ہے ،ْ عمران خان سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں ،ْ انشاء اللہ ہم مل کر قوم کی سمت درست کریں گے ،ْ اگر چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے تو پھر منصوبہ بندی کو مدنظر رکھنا ہوگا ،ْ مسلم لیگ (ن) نے جاری مالی سال کے لئے جو بجٹ ترتیب دیا تھا ان میں سے 450 سکیموں میں سے 343 سکیموں کی منظوری نہیں لی گئی تھی ،ْاگر تصحیح نہ ہوتی تو دو کھرب روپے لگنے تھے ،ْ سی پیک کے لئے گیم چینجر کا لفظ درست ہے ،ْدونوں ممالک کے درمیان بہترین سٹریٹجک تعلقات قائم ہیں۔

(جاری ہے)

پیر کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے تجربے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن میں ہائوس کے سامنے ایسے حقائق سامنے رکھوں گا‘ جو اہلیت اور کارکردگی پر سوالات پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ضمنی مالیاتی بل کے ذریعے بجٹ کی تصحیح کر رہے ہیں ،ْمسلم لیگ (ن) نے جو بجٹ تیار کیا تھا اس میں جی ڈی پی کا خسارہ 6.6 فیصد دکھایا گیا تھا‘اگر ہم تصحیح نہ کرتے تو 7 فیصد سے اوپر چلا جاتا۔

اسی طرح حسابات جاریہ کا خسارہ 18 ارب ڈالر ہے۔ قابل غور ہے اگر یہ اس اعداد و شمار کی تردید کریں تو میں اپنا بیان واپس لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گردشی قرضہ ہے۔ پانچ سال پہلے یہ 583 ارب تھا‘ آج ایک کھرب اور 200 ارب ہے۔ کارکردگی اور اہلیت دیکھیں کہ خسارے کو پبلک ہولڈنگ کمپنی بنا کر قابو پانے کی کوشش کی گئی‘ جو صارفین بل دے رہے تھے ان سے پانچ سالوں میں 110 ارب روپے اکٹھے کئے گئے تاہم اصل مسئلہ پر توجہ نہ دی گئی کہ پاکستان کے اندر مربوط پاور جنریشن کی ضرورت ہے۔

1985ء میں ملک میں پانی سے کل بجلی کی پیداوار کا 62 فیصد حاصل کیا جاتا تھا۔ آج پانی سے 26 فیصد بجلی کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔ ہمارے لئے یہ ایک نیا موقع ہے کہ ہم پاکستان اور اس کی معیشت کی سمت کو درست کریں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پانچ سال پہلے قومی کارپوریشنوں کا خسارہ 500 ارب تھا۔ پانچ سال بعد ایک کھرب ہوگیا ہے۔ اسی طرح معیشت میں گروتھ کے جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔

معیشت میں مصنوعی گروتھ آئی تھی۔ قرضے لے کر ترقیاتی پروگرام چلائے گئے اور یہ نہ دیکھا کہ اس کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ پچھلے تین سالوں سے دعوئوں کے برعکس ملک میں نجی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے حالانکہ یہ لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ سرمایہ کار ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اسی طرح کمرشل بنکوں سے قرضوں کا حجم کم ہوگیا کیونکہ غیر ضروری منصوبوں کو سیاسی بنیادوں پر تشکیل دیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم تھیں اس سے جو بچت ہوئی اس کا کوئی پتہ نہیں چل رہا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں۔ قوم نے عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انشاء اللہ ہم مل کر قوم کی سمت درست کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں کٹوتی پر تنقید کی جارہی ہے لیکن یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ 2017-18ء میں پی ایس ڈی پی کا جو حجم دیا گیا تھا مالی سال کے اختتام پر وہ پورا نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے تو پھر منصوبہ بندی کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) نے جاری مالی سال کے لئے جو بجٹ ترتیب دیا تھا ان میں سے 450 سکیموں میں سے 343 سکیموں کی منظوری نہیں لی گئی تھی۔ اگر اس کی تصحیح نہ ہوتی تو اس پر دو کھرب روپے لگنے تھے جبکہ مختص رقم 55 ارب روپے تھے۔ یہ غلط منصوبہ بندی تھی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سی پیک کے لئے گیم چینجر کا لفظ درست ہے ۔

پاکستان اور چین کے درمیان سٹریٹجک تعلقات کا آغاز ایوب خان کے دور سے شروع ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان بہترین سٹریٹجک تعلقات قائم ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد ہم نے سی پیک کے تحت منصوبوں کا تجزیہ کیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ اس کے دائرہ کار اور بنیاد کو توسیع دی جائے گی۔ اس ضمن میں اپنے چینی ہم منصب سے بھی ملاقات ہوئی ہے اور ان سے سی پیک کے دائرہ کار کو توسیع دینے پر اتفاق رائے کیا گیا ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات