منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس ، سپریم کورٹ کی صوبوں کوفی لیٹر قیمت کاتعین کرنے سے متعلق حتمی جواب جمع کرنے کی ہدایت

بدھ 14 نومبر 2018 00:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے منرل واٹر کمپنیوں کی جانب سے استعمال کیا جانے والازیرزمین پانی کی قیمت کا تعین کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں صوبوں کوفی لیٹر قیمت کا تعین کرنے کے بارے میں حتمی جواب جمع کرنے کی ہدایت کی ہے اورکہا ہے کہ منرل واٹرکمپنیوں سے پانی کی قیمت وصول کرنا عدالتوں کا نہیں صو بوں کا کام ہے جنہوں نے ایک روپیہ فی لیٹر وصولی پراتفاق کرلیا ہے دیگر فریقین بھی صوبوں کی تجاویز پرغور کریں،کمپنیاں بغیر ادائیگی زیر زمین پانی نکال رہی ہیں ، منگل کوچیف جسٹس کی سربراہی میںتین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہوکرعدالت کو بتایا کہ منرل وا ٹرکمپنیاں ایک لیٹر پانی پر ایک روپیہ ٹیکس دینے کیلئے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسے منرل نہیںبلکہ صرف بوتل میں بند پانی کہنا چاہئے۔ انہو نے کہاکہ جتنا زیر زمین پانی استعمال کیا جاچکا ہے اس پر بھی ٹیکس وصول کیاجائے کمپنیوں نے اب تک اربوں روپے کا پانی نکال کربیچ دیا ہے آخر اس لوٹ مار کا حساب کون دے گا۔ سماعت کے دوران ایک منرل واٹر کمپنی کے نمائندہ نے عدالت کوبتایا کہ پانی کی پیمائش کا یونٹ کیا ہوگا۔

ایک روپے فی لیٹر کے حساب سے ایک کیوسک پر ہمیں 42 ملین روپے دینا پڑیں گے۔ جس پرچیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ اپنی انڈسٹری بند کردیں ایک صنعت کے فائدے کے لئے قوم کا نقصان نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آپ اپنے کاروبار کے لئے خام مال مفت کیوں لے رہے ہیں۔ آپ کے منافع کمانے کے لئے قوم کو پیاسا نہیں مرنے دوں گا آپ بوتلوں کے پانی کو بند کردیں ہم گھڑے کا پانی پی لیں گے آپ اس قوم کے مسیحا توہے نہیں اس لئے قوم کی فکر چھوڑیں اپنے منافع کی فکر کریں۔

تیس سال سے فیکٹری چلا رہے ہیں تیس سال میں قوم کا کتنا پانی استعمال کر چکے ہیںہر بار آپ کی منرل واٹر میں ملاوٹ پکڑی گئی ہے چیف جسٹس نے ان سے مزیدکہاکہ آپ کے وکیل میرے پاس سفارش لے کر آتے رہے ہیں ہرکام کی ایک حد ہوتی ہے ، سماعت کے دوران آبی ماہر احسن صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں زیر زمین پانی خشک کررہی ہیں، ان کمپنیوں کے پاس پانی کی کوالٹی چیک کرنے کے آلات تک موجود ہی نہیں۔

جبکہ ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ کمپنیوں نے کسی ماحولیاتی کمپنی سے سرٹیفکیٹ تک نہیں لیا لیکن زیرزمین پانی نکال کربیچ رہے ہیں۔ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بتائیں بوتلوں والا پانی کیسے تیار کیا جاتا ہے بوتل میں بند پانی کی کوالٹی کیا ہی آبی ماہر نے بتایا کہ دریائے سندھ کے پانی سے اگر بکٹیریا ختم کردیں تو بوتل والے سے ہزار گنا بہتر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بوتل بند پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں نے پانی چوری کیا ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے بوتل بند مشروبات بنانے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ کمپنیوں کے خلاف سول اور فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔کیونکہ یہی کمپنیاں بغیر ادائیگی زیر زمین پانی نکال رہی ہیں۔ اس کے ساتھ کمپنی مالکان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ بعدازاں عدالت نے آبی ماہر ڈاکٹر احسن صدیقی' ڈی جی ماحولیات کو تمام فیکٹریوں کا پانی چیک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کوالٹی رپورٹ دس روز میںپیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ۔