ٹرائل کے دوران حسین نواز یا قطری شہزادہ آ جاتے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے. عدالت

نواز شریف نے فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت میں بیان قلمبند کرایا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 5 دسمبر 2018 11:26

ٹرائل کے دوران حسین نواز یا قطری شہزادہ آ جاتے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے. ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 05 دسمبر۔2018ء) احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا فلیگ شپ ریفرنس میں اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ حسین نواز ہی آ جاتے تو مسئلہ حل ہو جاتا، ٹرائل کے دوران قطری ہی آ جاتا تو بھی مسئلہ حل ہو جاتا ہے. نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی جو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی.

عدالت میں نواز شریف کا بطور ملزم تحریری بیان یو ایس بی میں جمع کرا دیا گیا، نواز شریف کی جانب سے دیے گئے جواب کمپیوٹر پر ٹائپ کیے گئے. وکیل نے عدالت کو گوش گزار کیا کہ نواز شریف نے فلیگ شپ ریفرنس میں 136 سوالوں کے جواب دے دیے، باقی4سوالوں کے جوابات کچھ درستگیوں کے بعد کل جمع کرائیں گے.

(جاری ہے)

جج ارشد ملک نے فلیگ شپ ریفرنس کے متعلق نواز شریف سے براہ راست سوال پوچھ لیا اور کہا کہ پہلے تو میاں صاحب وزیراعظم تھے، معاملات میں مصروف تھے، آپ کو بیٹوں سے جائیداد کی دستاویزات سے متعلق پوچھنا چاہیے تھا.

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بچے جوان ہیں، نواز شریف ان پر پریشر نہیں ڈال سکتے تھے. جج ارشد ملک نے کہا کہ پھر بھی پوچھ تو سکتے ہیں، بیٹے تو ہیں نا؟نواز شریف نے جواب دیا کہ بچے فلیٹس خریدتے تھے، ری فرنش کر کے کمپنیاں بنا کر فروخت کر دیتے تھے. جج محمد ارشد ملک نے استفسار کیا کہ حسین نواز کے ذریعے حسن نواز کو رقم جاتی تھی؟ حسین نواز ہی آ جاتے تو مسئلہ حل ہو جاتا، ٹرائل کے دوران قطری ہی آ جاتا تو بھی مسئلہ حل ہو جاتا.

نواز شریف نے فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت میں بیان قلمبند کرایا کہ اثاثے بنائے حسن نواز نے اور جے آئی ٹی نے مجھے مالک قرار دیا. نواز شریف نے 342 کے بیان میں کہا کہ سیاسی مخالفین کی جانب سے میرے خلاف الزامات لگائے گئے، میرے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا لیکن پھر بھی عدالت کو دستاویزات پیش کروں گا. جے آئی ٹی کی یکطرفہ رپورٹ کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ کے حکم پر ریفرنس دائر کیے گئے، حسن نواز نے اثاثے بنائے اور جے آئی ٹی رپورٹ میں مجھے غلط مالک قرار دیا گیا، واجد ضیاءاور تفتیشی افسر کامران کے علاوہ کسی گواہ نے میرے خلاف بیان نہیں دیا، ان دونوں نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی.