سپریم کورٹ بلوچستان کے گزشتہ 25سال کے پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دے، جام کمال خان

پی ایس ڈی پی میں 500ارب کی اسکیمات میں سے 2سے اڑھائی سو ارب روپے کی اسکیمات ختم کردی ہیں صوبے کا ریونیو 25سی30ارب تک لے کر جائیں گے ،وزیراعلیٰ بلوچستان کی پریس کانفرنس

منگل 5 مارچ 2019 21:01

سپریم کورٹ بلوچستان کے گزشتہ 25سال کے پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کیلئے کمیشن ..
کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 مارچ2019ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان نے کہا ہے کہ بہت سی اورچیزیں جام ہوگئی ہیں جس پر لوگوں کو اعتراض ہے ضرور ت پڑی تومنی بجٹ لاسکتے ہیں ،سپریم کورٹ بلوچستان کے گزشتہ 25سال کے پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دے اگست 2018ء سے پہلے کی حکومتوں نے افسران پر سیاسی دباؤ ڈال کر خلاف قانون اسکیمات پی ایس ڈی پی میں ڈلوائیں گزشتہ حکومتوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جن سرکاری افسران نے خلاف قانون پی ایس ڈی پی پر دستخط کئے انہیں بھی سزادی جانی چاہئے پی ایس ڈی پی میں 500ارب کی اسکیمات میں سے 2سے اڑھائی سو ارب روپے کی اسکیمات ختم کردی ہیں صوبے کا ریونیو 25سی30ارب تک لے کر جائیں گے ،بلوچستان ہائیکورٹ نے پی ایس ڈی پی پر ازخودنوٹس لیکر بہترین کام کیا لیکن 10غلط اسکیمات کیلئے باقی کی 90اسکیمات کو بھی روک دینے سے صوبے کی ترقی متاثر ہوگی بلوچستان ہائیکورٹ سے مختلف سیکٹرزمیںریلیف کیلئے اپیل کریں گے۔

(جاری ہے)

یہ بات انہوں نے منگل کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں کابینہ اجلاس میںوقفے کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی اس موقع پر صوبائی وزراء ومشیران سردارصالح محمد بھوتانی ،میر ظہوربلیدی،ملک نعیم بازئی،اسد بلوچ،نصیب اللہ مری،سلیم کھوسہ،حاجی اکبر آسکانی ،محمد خان لہڑی،عبدالخالق ہزارہ ،حاجی محمد خان طوراتمانخیل سمیت اعلیٰ سرکاری افسران بھی موجود تھے۔

وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ سپریم کورٹ بلوچستان کے گذشتہ 25سال کے پی ایس ڈی پی پر کمیشن قائم کرے جوتحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کرے ۔انہوں نے کہا کہ اگست 2018ء سے پہلے کی حکومتوں کے احکامات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جنہوں نے غلطی کی انہیںسزادی جائے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے پی ایس ڈی پی ماضی میں بھی متنازعہ رہے ہیں بلوچستان ہائی کورٹ نے 2018-19ء کے پی ایس ڈی پی کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد اس پر کام رو ک دیا گیا ہم عدالت کے اقدام کو سراہتے ہیں کیونکہ پی ایس ڈی پی وہ پروگرام ہے جس سے لوگوں کوترقیاتی ریلیف ملتا ہے عدالت میں پی ایس ڈی پی کیس کی سماعت کے دوران جن افسران نے پی ایس ڈی پی پر دستخط کئے تھے انہوںنے خود اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان پر دباؤ تھا جس کے بعد انہوں نے بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کئے اسکیمات پی ایس ڈی پی میں شامل کردیں ۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ایک مختصر حکم نامے میں صوبے میں چارسیکٹرز جن میں تعلیم ،صحت،پانی ا ور امن وامان شامل ہے کو ترجیحی بنیادوں پر پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا جسکے بعد صوبے کے دیگر سیکٹرز متاثر ہوئے ہیں بلوچستان میں زراعت ،جنگلات ،ْسڑکوں کی تعمیر ،لائیو سٹاک ،توانائی ایسے سیکٹرز ہیں جن میں کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے زراعت اور لائیو سٹاک بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ بھی پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں جس کی وجہ سے یہ شعبہ بہت متاثر ہورہا ہے ہم توانائی کے شعبے میں بھی پیچھے ہیں صوبے کا 70فیصد حصہ نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ہم نے سولرائزیشن پر کام کیا جس سے توانائی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا لیکن یہ بھی پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں سڑکوں کے بغیر ترقی ناممکن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کسی حوالے سے بھی بند نہیں ہے اس پر کام چل رہا ہے لیکن صرف ان سیکٹرزمیں کام ہورہا ہے جہاںعدالت نے نشاندہی کی ہے ہر نئی حکومت اپنی پالیسی لیکرآتی ہے لیکن عدالت حکم کی وجہ سے ہمارے ترقیاتی منصوبے محدودہوگئے ہیں ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہم یکم ستمبر2018ء کے بعد پی ایس ڈی پی ریویو کمیٹی بنائی اور ہرشعبے کے حوالے سے کیٹگریز بنادی ہیں اسکیمات کا جائزہ لیا گیا کہ کن اسکیمات پر کتنا کام ہواہے اسکے بعد ہم نے سب سے بڑا فیصلہ یہ کیا کہ تقریباً 40بلین روپے کی 411اسکیمات جو70سی80فیصد تک مکمل ہونے کے باوجود گزشتہ دس سال سے زائد عرصے سے تاخیر کا شکار ہیں انکو مکمل کرنے کیلئے کام شروع کیا گیا تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ پی ایس ڈی پی بلاک ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ابتک 8سے 10ارب روپے خرچ ہوچکے ہیںپی ایس ڈی پی میں 1500آن گوئنگ اسکیمات ہیں جن کی لاگت 37بلین روپے ہے ان پر بھی کام کیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت سے رجوع کریں گے تاکہ وہ جو سیکٹرپی ایس ڈی پی میںشامل نہیں انکو بھی پی ایس ڈی پی میں شامل کریں۔ انہوںنے کہا کہ صوبے کی تاریخ میںقوانین میں اتنی ترامیم نہیں ہوئیں جتنی ہم نے کی ہیں ہم نے انڈولمنٹ فنڈ،گڈگورننس ،سماجی شعبے سمیت دیگر شعبوں میںمیکنزم متعارف کروائے ہیں بلوچستان میں 1936کا بلڈنگ کوڈ اور 1879ء کا فارسٹ ایکٹ نافذ تھا ان میں بھی ترامیم کی جارہی ہیں ۔

جام کمال خان نے کہا کہ2019-20ء کے بجٹ میں اپنی ترجیحات کو شامل کریں گے تاکہ عوام کوریلیف مل سکے لیکن اسکے لئے ہمیں عدالت کا تعاون درکار ہوگا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کا قصور ہم پرنہ آنے دیا جائے اگر ہم قانو ن پر عمل کر رہے ہیںتوہمیں کام کرنے دیا جائے سی ایم آئی ٹی نے 800سے 900اسکیمات پر ایکشن لیا ہے ہم اپنا احتساب خود بھی کر رہے ہیں نیب زدہ سزا یافتہ پلی بارگین کرنے والے افسران کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنادی گئی ہے جوایسے افسران کا تعین کریگی اور ہم انکے خلاف کارروائی کریں گے۔

انہوںنے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا حصہ 9فیصدہے ہمیں دوکمیٹیوں میں نمائندگی ملی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اپنے حصے سے زیادہ لینے کی کوشش کریں ۔انہوں نے کہا کہ ملک کا بجٹ ہمیشہ خسارے کا ہوتاہے ہم نے پی ایس ڈی پی کو ریشنلائز کرکے 500ارب میں سے 2سے اڑھائی سو ارب کی اسکیمات کو ختم کیا ہے اس سے صوبے پر بوجھ کم ہوگاآمدن میں اضافے کے حوالے سے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بی آر اے اور مائنز منرلز میں نئی پالیسیاں لاکر صوبے کی آمدن میں اضافہ کیا جائے گا ۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال کے آخر تک صوبے کی آمدن کو 15ارب سے بڑھاکر25سے 30ارب تک لیکر جائیں گے ۔انہوں نے بتایا کہ 1800سے 1900اسکیمات ایسی ہیں جن کے بنیادی تقاضے ہی پورے نہیں کئے گئے جنہیں عدالت کے حکم پر ختم کردیا ہے جس محکمے میں یہ اسکیمات بنائیں وہ خود گواہ بن گئے کہ یہ غلط ہوا ہے جنہوںنے غلطی کی انہیںسزادینی چاہئے افسران کو خود چاہئے تھاکہ جب کوئی غلط کام ہورہا تھا تو وہ پی ایس ڈی پی کی کتاب پر دستخط ہی نہ کرتے اورعدالت جاتے کہ صوبے میں غلط کام ہورہا ہے کمی بیشی ضرور ہوتی ہے لیکن جہاں بڑے پیمانے پر غلط کام ہورہا ہو اسکے خلاف ایکشن ہونا چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تومنی بجٹ کی طرف بھی جاسکتے ہیں پی ایس ڈی پی کے ٹھیک ہونے سے مسائل حل ہونگے ہم صوبے کے مفاد میں فیصلے کرناچاہتے ہیں دس اسکیمات کی وجہ سے 90اسکیمات کو بند نہیں کرنا چاہئے اگرچہ 90اسکیمات غلط ہوں تو پورا پی ایس ڈی پی ہی بند کردیں ۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ بہت سی اورچیزیں جام ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے لوگوںکو اعتراض ہورہا ہے ہم پی ایس ڈی پی پر کام کر رہے ہیں اگر عدالت سے اجازت ملے تو دو دن میں ٹینڈر کرکے کام شروع کرسکتے ہیں ہم ایسا نظام بنارہے ہیں جس میں پہلے 30سے 40فیصد فنڈز ریلیز کرکے اسکیم پر کام شروع کیا جائے تاکہ جون ،جولائی تک ہم پر بوجھ نہ ہو ۔