سیاسی تصادم اورعدم استحکا م سے ملک کی اکانومی کو نقصان پہنچتا ہے، اسد عمر

جرائم کے خلاف کاروائیاں کرناور قانون کی حاکمیت قائم کرنا کسی طرح سے بھی سیاسی تنازعہ یا انتشار قرار نہیں دیا جا سکتا،مت صنعتوں کو کسی بھی قسم کی سبسڈی نہیں دے گی،وفاقی وزیرخزانہ کا کتاب کی رونمائی کی تقریب سے خطاب

بدھ 3 اپریل 2019 00:07

سیاسی تصادم اورعدم استحکا م سے ملک کی اکانومی کو نقصان پہنچتا ہے، اسد ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 اپریل2019ء) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ سیاسی تنازعات سے معیشت اور اقتصادی فیصلہ سازی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے بچناچاہئے۔ تاہم جرائم کے خلاف کاروائیاں کرناور قانون کی حاکمیت قائم کرنا کسی طرح سے بھی سیاسی تنازعہ یا انتشار قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کا موازنہ کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر قانون کی حکمرانی، معاشرے میں انصاف اور آئین کی بالادستی ہو تو ایک طویل عرصے تک ہم اپنی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔وہ ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور فریڈرک ایبرٹ سٹیفٹنگ (ایف ای ایس) کے مشترکہ ز یرِ اہتمام پری بجٹ مشاورت اور ’ترقی اور عدم مساوات‘ کے عنوان سے کتاب کی رونمائی کے موقع پر سے کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر عبدالرازق داؤد، حماد اظہر، شاندانہ گلزار خان، سرتاج عزیز، رومینا خورشید عالم، ڈاکٹر حفیظ اے پاشا، خاور ممتاز، ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اسد عمر نے کہا کہ ہمارے اقتصادی فیصلوں کی بنیاد مقامی ریسرچ اور حقائق پر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرو چند اشرافیہ کے اثر میں ہے اور ہم سب کو ایک ایسا سماج اور سیاسی نظام لانے کی ضرورت ہے جہاں اشرافیہ کے اثرات کم ہوں۔

سکتے ہیں. انہوں نے ویلتھ ٹیکس متعارف کرانے اور لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے کامرس ، ٹیکسٹائل اور انڈسڑی عبدالرازق داؤد نے کہا کہ ماضی میں ہم نے خاص طور پر چین کے ساتھ بہت بڑا تجارتی معاہدہ (ایف ٹی ای) کیا اور اب ہمیں سی پیک کے دوسرے مرحلے میں بہتر شرائط کے ساتھ اس معاہدے کو تبدیل کرنے کا موقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے انڈونیشیا ہ کے ساتھ کامیابی سے ایف ٹی اے پر دوبارہ معاہدہ کیا ہے اور انڈونیشیا کی منڈی تک 20 تجارتی اشیائ کی ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہو گئی ہے۔

. صنعتی پالیسی پر انہوں نے کہا کہ حکومت صنعتوں کو کسی بھی قسم کی سبسڈی نہیں دے گی، لیکن ٹیکنالوجی کے حوالے سے انڈسڑی کی استعداد کار بڑھانے کے لئے فنڈز کا بندوبست کرنے میں مدد کرے گی۔ اسٹیٹ منسٹر ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں انتہائی پیچیدہ ٹیکس کا نظام ہے جس میں فوری اصلاحاتی اقدامات کی ضرورت ہی. انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکس کی انتظامی معملات اور ساتھ ٹیکس پالیسی کو الگ کیا ہے اور ٹیکس پالیسی اب ایف بی آر کا حصہ نہیں ہے جو اب فنانس منسڑی کے تحت ہے۔

انہوں نے ایف بی آر کو ڈیجیٹلائز کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ سابق ڈپٹی چیئرمین، پلاننگ کمیشن ، سرتاج عزیز نے کہاکہ موجودہ حکومت کو زراعت کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ، جہاں کم سرمایہ کاری کے ساتھ تیز رفتار اور فوری ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو خبردار کیا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس پی ڈی) کے بجٹ کو کاٹنے سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ ، ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ پاکستان میں ایک فیصد کسان کے پاس زمین کا 22 فیصد حصہ ہے جبکہ 50 فی صد چھوٹے کسانوں کے پاس اس زمین کا 11 فیصد حصہ ہیں، جو کہ ایک زرعی معیشت میں عدم مساوات کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے لئے حقیقی امتحان براہ راست ٹیکس کے ذریعہ جی ڈی پی اور ٹیکس کے تناسب کو بڑھانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کم سے کم 64 شیڈول ودہولڈنگ ٹیکس ہیں جن کو آہستہ آہستہ ختم ہونا چاہئے۔ خواتین کی نیشنل کمیشن کے چیئر پرسن خاور ممتاز نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اعلی تعلیم یافتہ بیروزگار خواتین ہیں، جو قیمتی اساسہ ہیں۔ انہوں نے حکومت سے آئندہ وفاقی بجٹ میں صنفی ذمہ دارانہ بجٹ کی تجویز پر غور کرنے پر زور دیا۔ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ پائیدار ترقی اور معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کرگورننس اور معیشت کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے قائم کریں۔