شرح سود میںاضافہ خدشات سے کم ہے،دوسری قسط بھی آئے گی،میاں زاہد حسین

موجودہ حالات میںپیداوار اور برآمدات کا بڑھانا ناممکن ہو جائے گا،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

بدھ 22 مئی 2019 19:51

شرح سود میںاضافہ خدشات سے کم ہے،دوسری قسط بھی آئے گی،میاں زاہد حسین
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 1.5 فیصداضافہ کاروباری برادری اور ماہرین کے خدشات سے کم ہے، دوسری قسط بھی متو قع ہے۔شرح سود میں اضافہ سے معیشت مزید سست روی کا شکار ہو جائے گی جبکہ نجی شعبہ قرضوں سے محروم ہو جائے گا کیونکہ پندرہ سے سولہ فیصد سود ادا کرنے والا کوئی کاروبار منافع بخش نہیں رہ سکتا بلکہ اس کا دیوالیہ نکل جائے گا۔

بزنس کمیونٹی پہلے ہی بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت، افراط زر اور روپے کی قدر میں کمی سے پریشان ہے اور اب شرح سود میں اضافہ سے انکے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا اور کاروباری اداروںکے ڈیفالٹ سے بینک اور قرضداروںمیں قانونی تنا زعات جنم لیں گے ۔

(جاری ہے)

اس فیصلے سے حکومت پر بھی دبائو بڑھ جائے گا اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے زیادہ سرمایہ صرف کرنا پڑے گا جس سے سماجی شعبہ سمیت تمام شعبہ جات متاثر ہونگے۔

میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق حکومت مرکزی بینک سے قرضے نہیں لے گی اور اسے کمرشل بینکوں سے زیادہ شرح سود پر قرضے لینا ہوں گے جس سے اس کی مالی پوزیشن پرخراب اثر پڑے گا جبکہ نجی بینکوں کا منافع بڑھ جائے گا اور وہ نجی شعبہ کو قرضہ دینے سے کترائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ آمدہ بجٹ میں سات سو ارب کے ٹیکسوں، توانائی ،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ کے قوی امکان کے پیش نظر شرح سود میں اتنا زیادہ اضافہ نہیں کرنا چائیے تھا۔

انھوں نے کہا کہ اب شرح سود 12.25 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے جسے برداشت کرنا مشکل ہو گا اور پیداوار اور برآمدات کا بڑھانا ناممکن ہو جائے گا۔اس سے نہ صرف صنعتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ بہت سے چلتی ہوئی صنعتیں بھی بند ہو جائیں گی۔ مرکزی بینک کا فیصلہ شرح نمو میں اضافہ کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دے گاجبکہ سرمایہ کاری کے امکانات دم توڑ جائیں گے جس سے بے روزگاری کے خاتمہ، صنعتی فروغ اور بے روزگاری میں کمی کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اس فیصلے سے سٹیل، سیمنٹ ، فرٹیلائیزر اور دیگر شعبوں پر منفی اثر پڑے گا جبکہ بینکوں کا منافع بڑھ جائے گااور غربت میں اضا فہ ہوگا۔