محکمہ زراعت سندھ کے زیر اہتمام "انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ" کے عنوان سے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد

منگل 18 جون 2019 19:55

حیدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جون2019ء) محکمہ زراعت حکومت سندھ کے زیر اہتمام منگل کو ایک مقامی ہوٹل میں "انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ" (IPM) کے عنوان سے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیاخطبہ استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت ایکسٹینشن ونگ ہدایت اللہ چھجڑو نے کہا کہ ورکشاپ کے انعقاد سے ملکی و غیر ملکی ماہرین کو یکجا بیٹھنے کا موقع ملا ہے جبکہ ورکشاپ سے حاصل ہونے والی سفارشات کو قانون سازی کے لیے حکومت سندھ کو ارسال کیا جائے گا تاکہ مضر اثرات رکھنے والی مصنوعی زرعی ادویات کے ضمن میں بہتر قانون سازی ہو سکے اور غیر ضروری اور مضر مصنوعی ادویات کی روک تھام کی جاسکے انہوں نے کہا کہ انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ (IPM) ٹیکنیک ناصرف مصنوعی ادویات سے انسانی صحت پر پڑھنے والے مضر اثرات کو کم کرتی ہے بلکہ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے اس موقع پر سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری فارسٹ اینڈ وائلڈ لائف حکومت سندھ سہیل اکبر شاہ ، ڈائریکٹر انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری، ایڈیشنل سیکریٹری ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ شیخ شکیل احمد، یورپی یونین کے نیوٹریشن سینسیٹو اسپیشلسٹ ڈاکٹر جان ایشلے، ڈاکٹرسید عاصم ریحان کاظمی، ڈاکٹر محمد صدیق ، پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، پروفیسر ڈاکٹر فاروق اعظم ،کامران ندیم و دیگر ماہرین نے اس ضمن میں اپنے تکنیکی نقطہ نظر سے شرکاء کو آگاہ کیا اور اپنی سفارشات پیش کیںاس موقع پر یورپی یونین کے نیوٹریشن سینسیٹو اسپیشلسٹ ڈاکٹر جان ایشلے کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے پیسٹیسائیڈ کے استعمال سے پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتاہے لیکن اس کی بھاری قیمت انسانی صحت اور دیگر پیچیدگیوں کی شکل میں ادا کرنی پڑ رہی ہیںمقامی طور پر اگائی جانے والی غذائی اجناس میں سینتھیٹک پیسٹیسائیڈ کی موجود گی سے پتا چلتا ہے کہ یہ خوراک انسانی صحت کے لیے غیر موزوں ہے لہذا ہمیں سینتھیٹک پیسٹیسائیڈ والی ادویات کے استعمال کو فوری ترک کرکے نامیاتی ادویات اور کھاد کی جانب راغب ہونے کی ضرورت ہے جبکہ اس موقع پر انہوں نے اس ضمن میں قانون سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

(جاری ہے)

ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ہیڈ آف کمیونیکیشن برائے ٹاسک فورس سیکرٹیریٹ فار نیوٹریشن اصغر سومرو نے بتایا کہ مصنوعی زرعی ادویات کے استعمال سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نامیاتی زرعی ادویات و کھاد کا استعمال بڑھایا جائے جبکہ کیمیکل پیسٹ کا استعمال کم از کم کیا جائے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانچ سال تک کے 44 فیصد بچے غذائی قلت اور سوکھے پن( malnutrition and stunting )کا شکار ہیں جس کی وجہ سے انکی عمر کی مناسبت سے انکا قد اور ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے انہوں نے کہاکہ ایک سروے کے کے مطابق پاکستان میں زرعی مصنوعی ادویات کی وجہ سے انسانی صحت سے متعلق صورتحال ٹھیک نہیں، سروے کے مطابق بازار میں بکنے والے فروٹس اور سبزیوں میں بہت زیادہ مقدار میں مضر کیمیکلز پائے جاتے ہیں جبکہ ان کیمیکلز کا فروٹ اور سبزیوں میں موجود ہونا ایسا ہی ہے جیسے کہ پلاسٹک تھیلی جو ہمیشہ موجود رہتی ہے اور ختم نہیں ہوتی، یہ کیمیکل کھانے پینے کی اشیا سے منتقل ہوکر ہمارے جسم میں آتے ہیں اور مختلف قسم کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں لہذا ان زہریلے کیمیکلز کو کنٹرول کرنا نہایت ضروری ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ عورتوں میں بریسٹ کینسر کے امراض بڑھ رہے ہیں تو ہمیں وجہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیوں بڑھ رہے ہیں۔

اس ورکشاپ کے ذریعے ہم فارمر کمیٹیز اور ایسوسی ایشنز کو اس بات کی آگاہی دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مصنوعی زرعی ادویات کا بڑھتا ہو استعمال عوامی صحت کے مسائل پیدا کر رہا ہے جب کہ اس ورکشاپ سے حاصل شدہ سفارشات حکومت سند ھ کو ارسال کی جائیں گی کہ وہ اس ضمن میں قانون سازی کریں اور ایسے کیمیکل، مصنوعی ادویات جن پر دنیا بھر میں پابندی عائد ہو چکی ہے انہیں فوری طور پر بند کیا جائے اور دیگر کیمیکل ادویات کے استعمال میں کمی لانے کے لیے کسانوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔