ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں، افتخار چوہدری

پارلیمانی نظام ڈیلور نہیں کر رہا، آصف علی زرداری بیمار لیکن بہادر آدمی ہیں، سابق چیف جسٹس پاکستان

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ ہفتہ 22 جون 2019 20:09

ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں، افتخار چوہدری
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22جون2019) سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے ملک میں صدارتی نظام کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام ڈیلور نہیں کر رہا اس لیے ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر جج اپنے ذاتی عمل کا ذمہ دار ہے اگر کسی جج کے بچوں کا یا اس کی بیوی کا عمل خراب ہے تو جج اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔

ناہوں نے کہا کہ اگر آپ کسی جج پر الزام لگاتے ہیں تو آپ کو ثبوت لا کر دینا ہوگاجج کی ذات پر اگر کوئی الزام نہیں ہے تو وہ جج کے مس کنڈیکٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔ افتخار چوہدری نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ معتبر آدمی ہیں آزاد جج سے حکومت کبھی خوش نہیں ہوتی اور فائز عیسیٰ کا یہی قصور ہے کہ وہ آزاد جج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اس لیے ہم ملک میں صدارتی نظام چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

سابق چیف جسٹس نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری بیمار لیکن بہادر آدمی ہیں ان کے لیے جیل جاناپہلے بھی بڑی بات نہیں تھی لیکن یہ امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے۔ایک نجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ججز کا احتساب نہیں ہوتا ، انہوں نے بتایا کہ ججز کا احتساب ججز خود کرتے ہیں۔ہر ادارے سے متعلق شکایات ہوتی ہیں ہم وقتاً فوقتاً ان کے تدارک کے لیے کام کرتے ہیں، انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے ان کے وقت میں انہوں نے جوڈیشل پالیسی نافذ کی ہوئی تھی تاکہ چیک اینڈ بیلنس رہے اور جلد از جلد لوگوں کے کیسوں کا فیصلہ ہو سکے اور اسی لئے موجودہ چیف جسٹس نے بھی ماڈل کورٹس اسٹبلیش کروائی ہیں تا کہ چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکے۔

افتخار محمد چودھری نےاس سے پہلے کہاتھا کہ فائزعیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں حکومت پھنس جائے گی، ریفرنس دائر کرتے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، جسٹس فائز عیسیٰ کی زوجہ امیر گھرانے سے ہیں، ان کو جائیداد کا کوئی لالچ نہیں، اس پر تحریک شروع ہوجائے گی۔ سمری بھیجتے وقت آئین پاکستان کو فالو نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف آئین پاکستان کے آرٹیکل 90 کی خلاف ورزی کی گئی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔