مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن شریف فیملی تک پہنچا دیتے تھے

جج ارشد ملک نے نواز شریف سے ملاقات کی خواہش خود ظاہر کی تھی۔ معروف کالم نگار جاوید چودھری

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 17 جولائی 2019 11:02

مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 جولائی 2019ء) : معروف صحافی و کالم نگار جاوید چودھری نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے حوالے سے اپنے حالیہ کالم میں مزید انکشاف کر دیا اور کہا کہ میں نے جب اس اسٹوری پر کام شروع کیا تو مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن شریف فیملی تک پہنچا دیتے تھے۔ اپنے کالم میں جاوید چودھری کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک راولپنڈی کے رہائشی ہیں یہ جج بننے سے پہلے راولپنڈی میں پریکٹس کرتے تھے. راولپنڈی میں ان کے چار لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے، پہلا شخص ناصر جنجوعہ تھا‘ یہ لالہ موسیٰ سے تعلق رکھتا ہے، یہ 35 سال سے میاں نواز شریف کے دوستوں کے حلقے میں بھی شامل ہے، یہ بیورو کریسی، جوڈیشری اور آرمی آفیسرز کے ساتھ تعلقات بھی رکھتا تھا، حلقہ وسیع تھا، لوگ اپنی پروموشن اور تبادلوں کے لیے اس کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔

(جاری ہے)

دوسرا کردار ناصر بٹ کا بڑا بھائی تھا یہ لوگ دھڑے باز اور دشمن دار تھے یا کورٹ کچہری کے چکر لگاتے رہتے تھے اور ان چکروں میں وکیلوں ، ججوں اور پولیس افسروں کو اپنا دوست بنالیتے تھے۔ ناصر بٹ بعد ازاں میاں نواز شریف کے قریب پہنچ گیا اور یہ ان کا جاں نثار بن گیا۔ تیسرا کردار مہر جیلانی تھا، یہ میاں طارق سے ملتا جلتا کردار تھا۔ یہ راولپنڈی میں سرکاری ملازموں کا ٹاؤٹ مشہور تھا‘ یہ ہر اہم جج‘ پولیس افسر اور سیاستدان کے قریب پہنچ جاتا تھا اور ان کے گندے ’’کچھے‘‘ دھونا شروع کر دیتا تھا اور چوتھا کردار خرم یوسف تھا۔

یہ پراپرٹی ڈیلر ہے اور اہم لوگوں کے ساتھ تصویریں کھینچوا کر خود کو اہم ثابت کرنے کی لت میں مبتلا ہے۔ جج ارشد ملک سمیت یہ سارے کردار ناصر جنجوعہ کے حلقے میں شامل تھے۔ناصر جنجوعہ کے حلقے میں دو اور لوگ بھی شامل تھے (یہ آج بھی ہیں)، میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اور نیب کے سابق چیئرمین قمر زمان چوہدری۔ یہ دونوں ناصر جنجوعہ کے روزانہ کے ملاقاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میاں نواز شریف کا کیس نیب کورٹ نمبر ایک میں شروع ہوا۔ شروع میں جج محمد بشیر کیس سن رہے تھے‘ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 9 جولائی 2018ء کو جج محمد بشیر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا اور کہا’’آپ شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ دیگر 2 ریفرنسز العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کی سماعت نہ کریں۔

جج محمد بشیر نے 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کردونوں ریفرنسز کی سماعت سے معذرت کر لی اور یوں8 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر یہ کیس احتساب عدالت نمبردو کے جج ارشد ملک کے حوالے کر دیا گیا۔ ارشد ملک کے بقول نواز شریف کے مقدمات کی منتقلی کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ان سے رابطہ کیا۔ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا اس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ایک با اثر شخصیت کے ذریعے انھیں احتساب عدالت کا جج لگوایا۔

آپ اب صورت حال دیکھیے کہ سابق چیئرمین نیب بھی ناصر جنجوعہ کے دوست، کیپٹن صفدر بھی ناصر جنجوعہ کے دوست اور جج ارشد ملک بھی ناصر جنجوعہ کے دوست، میں نے جب اس اسٹوری پر کام شروع کیا تو مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن شریف فیملی تک پہنچا دیتے تھے۔جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ ان دنوں کی ن لیگ کے لیڈرز کی پریس ٹاکس نکالیں اور یہ پریس ٹاکس آج کی کہانی کے قریب رکھ کر دیں تو آپ بڑی آسانی سے خفیہ انفارمیشن کے سورس تک پہنچ جائیں گے، بہرحال قصہ مختصر ارشد ملک کے بقول ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی نے انہیں 10 کروڑ روپے مالیت کے یوروز کی پیش کش کی، ناصر جنجوعہ نے یہ بھی کہا کہ دو کروڑ روپے مالیت کے یوروز اس وقت بھی میری گاڑی میں پڑے ہیں۔

آپ یہ فوری طور پر وصول کر لیں‘ یہ رقم ناصر جنجوعہ خود نہیں دے رہا تھا، یہ میاں نواز شریف کے ایک جیالے نے فراہم کی تھی لیکن جج صاحب کے بقول ’’میں نے انکار کر دیا‘‘۔