مودی نے آرٹیکل 370 کی واپسی پر سوچنا شروع کردیا

مودی پرعالمی اور بھارت کے اندرونی لوگوں کا دباؤ بڑھ گیا، مودی نے شاید ٹرمپ کو بھی یہی کہا کہ اب سپریم کورٹ ہی کچھ کرسکتی ہے

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 22 اگست 2019 21:24

مودی نے آرٹیکل 370 کی واپسی پر سوچنا شروع کردیا
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔22 اگست 2019ء) بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے آرٹیکل 370 کی واپسی پر سوچنا شروع کردیا ہے،مودی پر عالمی اور بھارت کے اندرونی لوگوں کادباؤ بڑھ گیا ، مودی نے شاید ٹرمپ کو بھی یہی کہا کہ اب سپریم کورٹ ہی کچھ کرسکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اطلاعات یہ ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے آرٹیکل 370 کی واپسی پر سوچنا شروع کردیا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مودی سے شاید بات کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ میں اس میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ لہذا آپ اس کو تبدیل کریں۔جس پر مودی نے کہا کہ اب ہم توکچھ نہیں کرسکتے، تاہم لوگ سپریم کورٹ جا رہے ہیں، جموں کشمیرکی ہائیکورٹ نے اس حیثیت کوبرقراررکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔سپریم کورٹ بھی اس فیصلے کو لے چکی ہے، اب ان کے یہ نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ بھی ڈر جائے گی۔

(جاری ہے)

کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ اب اس قانون کو واپس کرنے کا حکم دے گی۔کیونکہ عالمی اور بھارت کے اندرونی لوگوں کا بھی مودی سرکار پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ وہاں سے آہستہ آہستہ لوگ باہر نکل رہے ہیں کہ اس سارے معاملے سے وفاق کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ اب یہ کیس رکنے والا نہیں ہے، ہندوستان پہلے تومذاکرات کیلئے بھی تیار نہیں تھا۔

دوسری جانب وفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ کشمیر میں نسل کشی روکنے کیلئے 2 طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک تو جنگ اور دوسرا دنیا کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔ دنیا دوسرا ہٹلرقبول نہیں کرے گی۔ یورپی  ممالک نے دیکھا کہ ہٹلر نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ آسام میں 4 لاکھ مسلمانوں کی شہریت ختم کی جا رہی ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ایٹمی جنگ میں ہار جیت نہیں ہوتی، صرف ہار ہی ہار ہوتی ہے۔ اگردنیا نوٹس نہیں لے گی تو جنگ سے بھارت کو روکا جا سکتا ہے۔ نازی طرز کی حکومت سے کیسے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ وفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپوزیشن پر ہم نے کیسز نہیں  بنائے یہ کیسز  ماضی کے ہیں۔ نیب خودمختار ادارہ ہے۔ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔ پارلیمانی سسٹم میں قوانین بننے میں وقت لگتا ہے۔