رواں سال دوسری ششماہی میں مہنگائی کم ہونا شروع ہوجائیگی، اسٹیٹ بینک حکام

مہنگائی کی شرح11 سے 12 فیصد کے درمیان رہے گی، آئی ایم ایف کے مطابق مہنگائی کی شرح13 فیصد رہے گی۔قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی خزانہ کا اجلاس

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 1 اکتوبر 2019 19:07

رواں سال دوسری ششماہی میں مہنگائی کم ہونا شروع ہوجائیگی، اسٹیٹ بینک ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ یکم اکتوبر2019ء) اسٹیٹ بینک حکام نے کہا ہے کہ رواں سال کی دوسری ششماہی میں مہنگائی کم ہونا شروع ہوجائے گی، مہنگائی کی شرح11 سے 12 فیصد کے درمیان رہے گی، آئی ایم ایف کے مطابق مہنگائی کی شرح13 فیصد رہے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ شرح سود میں اضافے کا کیا فائدہ ہوا ہے۔

توقع تھی کہ شرح سود کم ہوگی۔ ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ مانیٹری پالیسی سے متعلق تجاویز دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ لہذا مانیٹری پالیسی سے متعلق کوئی تجاویز نہیں دے سکتا۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اختیار ہے کہ وہ تجاویز دے۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 6 ماہ میں ڈالرکا زیادہ سے زیادہ متوقع ریٹ 163 روپے ہے۔

(جاری ہے)

ڈالر کا ریٹ مارکیٹ خود طے کرے گی۔

لوگ جتنی مرضی افواہیں پھیلائیں اور ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی بنیاد پرطے ہوگا۔ ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک اس وقت مداخلت کرتا ہے جب وہ ضروری سمجھتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے نزدیک پہلے سے طے شدہ کوئی ایکسچینج ریٹ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فری فلوٹ ایکسچینج ریٹ نہیں ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ رواں سال کی دوسری ششماہی میں مہنگائی کم ہونا شروع ہوجائے گی، مہنگائی کی شرح11 سے 12 فیصد کے درمیان رہے گی، آئی ایم ایف کے مطابق مہنگائی کی شرح13 فیصد رہے گی۔

دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی ای) کراچی نے ممتاز شخصیات کے لیکچرز کی سیریز کے سلسلے میں پاکستان کی معیشت، معاشی چیلنجز اور امکانات کے موضوع پر آئی بی اے کیمپس میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی ای) کراچی میں لیکچر دیا۔ ڈاکٹر باقر نے اپنے لیکچر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جس میں معیشت کو درپیش موجودہ معاشی چیلنجز کے اسباب، ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے معاشی ٹیم کے اقدامات اور اب تک کے نتائج اور معیشت کا منظرنامہ شامل ہیں۔

انہوں نے موجودہ معاشی چیلنجز کے دو بنیادی اسباب بیان کئے، پہلا یہ کہ 2015-2018 کے دوران بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کا خسارہ جو زائد القدر اور نسبتاً معینہ ایکسچینج ریٹ کے تناظر میں ملک کے ذخائر میں نمایاں کمی کا باعث بنا، دوسرا اہم سبب بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ اور سرکاری قرضہ تھا جس نے ملک کو قرضے کے لائق ہونے کی اہلیت کو مشکوک بنادیا تھا۔

ڈاکٹر باقر نے کہا کہ اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ان شعبوں میں تین قسم کے اقدامات کئے گئے ہیں جن میں بیرونی شعبہ، مالیاتی شعبہ اور زرعی شعبہ شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے اقدام سے 2017 کے آخر سے ایکسچینج ریٹ میں متعدد بار ردوبدل کرنے سے شرح مبادلہ کی زائد قدرپیمائی کو کم کرنے میں مدد ملی۔ اس کا اختتام مئی 2019 میں ایکسچینج ریٹ کے نظام میں تبدیلی سے ہوا جس کی جگہ مارکیٹ پر مبنی نظام نے لے لی جس میں اقتصادی حکام کو کرنسی کے قدر کا تعین نہیں کرنا پڑے گا ۔

انہوں نے واضح کیا کہ مارکیٹ پر مبنی نظام کے آزادانہ پہلو پر مشتمل نہیں تھا اور اس میں اسٹیٹ بینک کو خراب حالات کی درستگی کے لئے مارکیٹ میں مداخلت کی اجازت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں جاری کھاتے میں نمایاں بہتری آئی اور اس کا 2 ارب ڈالر ماہانہ تک کا تاریخی بلند خسارہ کم ہو کر نصف رہ گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری لانے میں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے حجم میں بہتری نے کردار ادا کیا، اگرچہ بین الاقوامی اکائی قیمتوں میں کمی کے باعث برآمدی قدروں میں زیادہ نمو نہیں ہو سکی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے معیشت میں برآمدات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روزگار اور پیداوار کے لحاظ سے جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ برآمدات کا حجم ہے۔