امریکی رکن کانگریس الہان عمر نے کشمیر پربھارتی صحافی کا بیانیہ مسترد کر دیا،

آرتی تکو سنگھ کو دنیا کو سچ بتانے کا مشورہ

بدھ 23 اکتوبر 2019 20:37

واشنگٹن۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اکتوبر2019ء) امریکی رکن کانگریس الہان عمر نے بھارت کی سینئر صحافی آرتی تکو سنگھ کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بھارتی حکومت کا موقف پیش کرنے اور امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی میں بحث کو متعصبانہ قراردینے کے بجائے دنیاکو سچ بتانے کا مشورہ دیا ہے۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق آرتی تکو کو بھارتی حکومت نے منگل کو واشنگٹن میں جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں امریکی کانگریس کی امور خارجہ کی کمیٹی میں بحث کے دوران بھارت کی نمائندگی کے لیے مقررکیا تھا۔

آرتی تکو نے ہرزہ سرائی کیکہ پاکستان کی سرپرستی والی دہشت گردی کی وجہ سے کشمیرکے مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیںجس کو مغرب کے انسانی حقوق کارکنوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے کئی سالوں سے نظرانداز کیا ہے۔

(جاری ہے)

الہان عمر نے بھارتی صحافی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے ملک کے سامعین کو لبھانے کی کوشش میں بے اعتبار دعوے کررہی ہے۔

الہان عمر نے آر تی تکو کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ایک صحافی کا کام سچ تلاش کرکے لوگوں کو بتانا ہے۔آپ کے بہت سے سامعین ہیں اور آپ پر سچ کو سامنے لانے کی بڑی ذمہ داری ہے۔ رکن کانگریس نے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ بیانیے کو کس طرح موڑ کرسچ کو مسخ کیا جاسکتا ہے۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ صرف سرکاری موقف بیان کرکے ادھورا سچ بولا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ذرائع ابلا غ کا کسی حکومت کا ترجمان بن جانا بدترین صورت ہوتی ہے۔ الہان عمر نے کہاکہ آپ کی کہانی کہ کشمیر میں صرف عسکریت پسندوں کی وجہ سے مسائل ہیں اور صرف وہی لوگ بھارت سے الگ ہونے کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور یہ سب کچھ پاکستان کی مدد سے ہورہا ہے یقین کے قابل نہیں ۔ آپ نے یہ ناقابل یقین اور مشکوک دعویٰ بھی کیاکہ کشمیر میں بھارتی حکومت کا کریک ڈائون انسانی حقوق کے لیے اچھا ہے۔

اگرآپ کے دعوے کے مطابق یہ انسانی حقوق کے لیے اچھا ہے تویہ چھپ کر نہیں ہونا چاہیے تھا۔آپ نے کشمیر پر قبضے اور مواصلاتی ذرائع کی معطلی کو خواتین کے لیے بہتر بتاکر ایک صنفی معاملہ بنادیا۔ آرتی تکو نے کہا تھاکہ مغربی ذرائع ابلاغ کشمیر کی مسخ شدہ حقیقت پیش کرتے ہیں۔ لندن میں مقیم ایک ماہر تعلیم پروفیسرنتاشا کول نے کہا کہ کشمیرمیں انسانی بحران ہے۔

انہوںنے کہاکہ ہم سادہ الفاظ میں صرف ان لوگوں کے لیے انسانی حقوق جمہوریت اور آزادی کی بات کرتے ہیں جنہیں سالہاسال سے محض پرامن طورپرایک جگہ جمع ہونے کی پاداش میںگولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ریاست کو یہ بات تسلیم کرکے معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ فرقہ وارانہ سیاست سے بھارت اور کشمیر کی خدمت نہیں ہوتی ہے۔ اگر کشمیر ایک فرقہ وارنہ مسئلہ ہوتا توبھارتی مسلمان بھی کشمیری مسلمانوں کی طرح محسوس کرتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا ہے۔