زندگی جینے کے لیے لوگ مرنے لگے

خود کشی کے رجحان کو کم کرنے کے لیے مختلف ادارے لوگوں کو موت کامزہ چکھانے لگ گئے

Sajjad Qadir سجاد قادر ہفتہ 9 نومبر 2019 06:20

زندگی جینے کے لیے لوگ مرنے لگے
سیول ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 نومبر2019ء)   مرنا کوئی نہیں چاہتا مگر جینا ہر کوئی چاہتا ہے۔مگر اس زندگی میں ہماری خواہشات یاپھر لائف اسٹائل ایساہوتا ہے کہ زندگی ہم سے ایسے بدلے لینے لگ جاتی ہے کہ ہم زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس پریشر کے نتیجے میں لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جنوبی کوریا دنیا کاایسا علاقہ ہے جہاں زندگی سے تنگ آئے افراد کے خود کشی کرنے کارجحان بہت زیادہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کے مختلف اداروںنے لوگوں میں خود کشی کارجحان کم کرنے کے لیے انہیں زندگی میں ہی مارنے کابندوبست کر لیاہے۔

جنوبی کوریا میں خوشگوار زندگی کے لیے ایک نیا رجحان مقبول ہورہا ہے جس کے تحت جیتے جاگتے لوگ اپنی زندگی کے آخری لمحات سے لے کر مرنے تک کی ریہرسل کرتے ہیں، جسے ”خوشگوار موت“ کا نام دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ریہرسل میں شریک ہونے والا ہر شخص پہلے اپنی زندگی کی آخری تصویر کھنچواتا ہے، اپنے ہاتھ سے اپنی وصیت لکھتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے لیے تابوت میں لیٹ جاتا ہے اور خود کو مردہ محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جنوبی کوریا میں ”موت کی ریہرسل“ کے مختلف مراکز 2012ءسے کام کررہے ہیں، جہاں ہر سال لاکھوں لوگ قربِ موت اور آخری رسومات کی مشق کرتے ہیں۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر مراکز غیر سرکاری تنظیموں یا فلاحی اداروں کے تحت کام کررہے ہیں جہاں موت کی ریہرسل کے لیے آنے والوں سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہے جہاں ہر سال تقریباً 11000 افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔

آبادی کے تناسب سے یہ شرح 20.2 فی 100,000 بنتی ہے جو عالمی ادارہ صحت کے بیان کردہ عالمی اوسط یعنی 10.53 فی 100,000 سے تقریباً دوگنی ہے جو بلاشبہ ایک تشویش ناک امر ہے۔موت کی ریہرسل کروانے والے مراکز کا مقصد، جنوبی کوریا میں خودکشی کی بلند شرح کو کم کرنا ہے۔یہ مراکز چلانے والے افراد اور نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی زندگی ہی میں موت کے تجربے سے گزرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ زندگی کتنی قیمتی ہے۔ لہٰذا، اس ریہرسل کے بعد لوگوں کی اکثریت کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ انہیں اپنی زندگی خوشگوار محسوس ہونے لگتی ہے اور ان کے ذہنوں میں مرنے یا خودکشی کرنے کے خیالات بھی بہت کم آتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :