بون میرو سرجری کے بعد مریض کا ڈی این اے ہی بدل گیا

Ameen Akbar امین اکبر منگل 24 دسمبر 2019 23:56

بون میرو سرجری کے بعد مریض کا ڈی این اے ہی بدل گیا

نیواڈا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی اس وقت حیرت کی ا نتہا نہ رہی جب انہیں  معلوم ہوا کہ بون میرو سرجری کے نتیجے میں  اُن کا ڈی این اے ہی بدل گیا ہے۔اُن کا ڈی این اے بدل کر بون میرو عطیہ کرنے والے شخص جیسا ہو گیا تھا۔
کرس لونگ کئی سالوں سے  نیواڈا میں واشو کاؤنٹی شیرف کے  دفتر میں کام کرتے رہے ہیں۔کینسر کے باعث ڈاکٹروں نے انہیں بون میرو سرجری کے بارے میں بتایا۔

وہ خوش قسمت تھے کہ جلد ہی انہیں بون میرو عطیہ کرنے والا شخص مل گیا، جن کا تعلق جرمنی سے تھا۔  سرجری سے پہلے اس ڈونر اور کرس کے مابین چند پیغامات کا ہی تبادلہ ہوا تھا یعنی دونوں ایک دوسرے سے انجان تھے۔کرس کو اندازہ نہیں تھا کہ چند مہینوں میں وہ ڈی این اے کے اعتبار سے اپنے ڈونر  میں بدل جائیں گے۔

(جاری ہے)

کرس کے ساتھیوں کو جب اُن کی بون میرو سرجری کے بارے میں معلوم ہوا  انہوں نے اس سرجری کے ڈی این اے پر ہونے والے اثرات دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

اُن کا فیصلہ  اس وجہ سے بہت اچھا رہا  کہ اس سے بہت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔
کرس کے ساتھ  شیرف آفس کی کرائم لیب میں کام کرنے والی رینی رومیرو کو شک تھا کہ اس سرجری کے نتیجے میں  اُن کے ساتھی کے ڈی این اے پر کافی اثر پڑے گا کیونکہ اس سرجری کا مقصد کرس کے بیمار خون کو صحت مند خون سے بدلنا تھا۔ رینی کو اندازہ تھا کہ  تبدیلیاں خون  میں ہونے والی تبدیلیوں سے بڑھ کر ہو سکتی ہیں۔

اسی وجہ سے انہوں نے جسم کے کئی حصوں سے ڈی این اے کےنمونے لیے اور وقت  فوقتاً ان کا تجزیہ کیا۔
کرس کو اس وقت حیرت ہوئی جب انہیں بتایا گیا کہ سرجری کے صرف تین ماہ بعد ہی اُن کے خون کے تمام ڈی این اے بدل چکے ہیں۔سرجری کے چار سال بعد معلوم ہوا ہے کہ کرس کا جرمی ڈی این اے بھی  بون میرو عطیہ کرنے والے شخص کے ڈی این اے سے بدل گیا ہے۔اس کے ساتھ  ساتھ اُن  کے ہونٹوں اور گالوں کا ڈی این بھی بدل گیا تھا۔

کرس کا صرف چھاتی اور سر کے بالوں  کا ڈی این اے ہی اپنا تھا۔اس طرح کرس لانگ ایسے شخص میں بدل گئے، جن کے جسم میں ڈی این اے کے دو سیٹ ہیں۔
ڈی این اے بدلنے کا کرس کی زندگی پر بظاہر کوئی اثر نہیں پڑا۔ انہیں خود سے تو یہ تبدیلیاں محسوس بھی نہیں ہوئی۔ماہرین کا کہنا ہےکہ  ڈی این اے بدلنے سے انسان کا دماغ یا شخصیت نہیں بدلتی۔ فارنسک کے حوالے سے دیکھا جائے تو اگر کبھی  کرس کا ڈی این اے لینے کی ضرورت پڑی  کو ماہرین کو ان کے جسم کے نمونوں  سے  دو طرح کے جنیٹک کوڈ ملیں گے۔


کرس لانگ کے کیس کو ستمبر میں ہونے والی انٹرنیشنل فارنسک سائنس کانفرنس میں ڈسکس کیا گیا۔ کانفرنس میں سوال اٹھائے گئے کہ کرس جیسا شخص کوئی جرم کر کے تفتیشی افسروں کو گمراہ کر سکتا ہے؟ فارنسک کے ماہرین اسی طرح کے بہت سے سوالوں کے جوابات تلاش کر رہے ہیں۔
کرس اس وقت خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کا ارادہ ہے کہ جلد ہی جرمنی جا کر اپنے محسن کا شکریہ ادا کریں۔

متعلقہ عنوان :