سابق ڈی جی سلیم وٹو کی پلاٹ کے حصول کیلئے دائر ،جب 1978 کا قانون 2001 میں ختم ہوا تو آپ نے رولز کیسے بنایا،سپریم کورٹ

اسمیں تو سب نے لپیٹ میں آنا ہے، ہم آرڈر دیتے ہیں جو ہوگا سب کے ساتھ ہوگا،سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس

منگل 18 فروری 2020 14:49

سابق ڈی جی سلیم وٹو کی پلاٹ کے حصول کیلئے دائر ،جب 1978 کا قانون 2001 میں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 فروری2020ء) سپریم کورٹ نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف سابق ڈی جی سلیم وٹو کی پلاٹ کے حصول کیلئے دائر درخواست پر کہا ہے کہ جب 1978 کا قانون 2001 میں ختم ہوا تو آپ نے رولز کیسے بنایا،اسمیں تو سب نے لپیٹ میں آنا ہے، ہم آرڈر دیتے ہیں جو ہوگا سب کے ساتھ ہوگا۔ سپریم کورٹ میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیخلاف سابق ڈی جی سلیم وٹو کی پلاٹ کے حصول کیلئے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو نماز اور روزے ولا حساب ہو جائیگا، سلیم وٹو نے سکیم بنا لی اور پلاٹ اپنے نام کر لیا،سرکاری زمین کو پلاٹ سکیم بنانے سے فلیٹ بنا کر دیتے۔چیف جسٹس وکیل سلیم وٹو قلب حسن نے کہاکہ سلیم وٹو کو پلاٹ ملا اور بعد میں کیسنل کیا گیا، دیگر تمام لوگوں کو بعد میں پلاٹ دئے گئے مگر میرے موکل کو نہیں ملا۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہ سکیم کیسے بنی تھی۔

وکیل قلب حسن نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ ایپملائز کیلئے دو فیصد کوٹہ رکھا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے لوکل ایریا کی ڈویلپمنٹ کرنی تھی مگر آپ نے اپنے لئے ہائوسنگ سکیم بنا لی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ تین لوگوں نے رولز بنا لئے اور پلاٹ ان کو خود بھی ملے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں سب کو پلاٹ دے دئے مگر ہائیکورٹ کے فیصلے میں تو کسی کو نہیں دیا گیا۔

وکیل قلب حسن نے کہاکہ تمام لوگوں کو پلاٹ ملے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ تو پھر آپ اسکو چیلنج کرتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ رولز تو قانون کے تحت بنتے ہیں جب قانون ہی ختم ہوگیا تو رولز کیسے بنائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جب 1978 کا قانون 2001 میں ختم ہوا تو آپ نے رولز کیسے بنایا،اسمیں تو سب نے لپیٹ میں آنا ہے، ہم آرڈر دیتے ہیں جو ہوگا سب کے ساتھ ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے نکہاکہ یہ سارا میلہ سجا ہی میرا رومال چوری کرنے کیلئے یہ تو وہ والی بات ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لمبی چوڑی بات چھوڑ دیں قانون کی بات کریں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہ سکیم اور پلاٹ کس کے ہیں بتا دیں۔ وکیل قلب حسن نے کہاکہ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اس سوسائٹی کی اون کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جس کو جہاں مرضی آئے پلاٹ دے دیا، سرکاری زمین افسران نے اپنے نام الاٹ کر دی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ رات کو سوچ رہا تھا پی ڈی اے کے افسران عوام کی خدمت کے بجائے اپنی خدمت کرتے رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کس قانون اور لیز کے تحت سوسائٹی وجود میں آئی۔وکیل قلب حسن نے کہاکہ مجھے وقت دیں اس کیس کا سارا بیک گرونڈ سے عدالت کو آگاہ کر دوں گا۔بعد ازاں کیس کی سماعت تک کیلئے ملتوی کر دی گئی