بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لئے 10 ارب ڈالر خرچ کریں گے ،وزیراعلیٰ سندھ

پانی، حفظان صحت ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ، سڑکیں / پل اور انڈر پاس جیسے بڑے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا ہے،زیر تربیت اسسٹنٹ کمشنرز سے خطاب

بدھ 19 فروری 2020 20:31

بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لئے 10 ارب ڈالر خرچ کریں گے ،وزیراعلیٰ سندھ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 فروری2020ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ انکی حکومت نے ورلڈ بینک کے تعاون سے ان علاقوں اور ان شعبوں کی نشاندہی کرنے کیلئے کراچی کی تشخیصی تحقیق کی جس میں ترقی کے ضمن میں ضروری مداخلت کی جاسکتی ہے۔اس اسٹڈی کی رہنمائی کے تحت ورلڈ بینک کے اشتراک سے صوبائی حکومت آئندہ 10 سالوں میں کے ایم سی ، ڈی ایم سی ، ڈسٹرکٹ کونسل اور واٹر بورڈ سمیت بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لئے 10 ارب ڈالر خرچ کرے گی ، اس کے علاوہ پانی، حفظان صحت ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ، سڑکیں / پل اور انڈر پاس جیسے بڑے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا ہے اور اس کا مقصد کراچی کو دنیا کے بہترین رہائشی شہروں میں سے ایک بنانا ہے۔

یہ بات انہوں نے 47 زیر تربیتی اسسٹنٹ کمشنرز سے خطاب کرتے ہوئے کہی جنہوں نے ڈائریکٹر اکیڈمی لاہور کی سربراہی میں سول سروس اکیڈمی کے زیر اہتمام اسٹڈی ٹور کے تحت یہاں کا دورہ کیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم ، وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو ، سیکرٹری داخلہ عثمان چاچڑ ، سیکرٹری خزانہ حسن نقوی ، سیکرٹری صحت زاہد عباسی اور دیگر نے شرکت کی۔

ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ ضلعی سربراہان کی ڈیولیوایشن ناظموں کے نام کے تحت تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بھرتیاں شروع کیں بلکہ تقرری ، پروموشن اور ٹرانسفر (اے پی ٹی)کے قواعد کے برخلاف پروموشنز بھی دیئے۔ انہوں نے کہاصرف کراچی میں 6000 اضافی ملازمین کو کے ایم سی میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نظام (ڈیولوشن) میں کوئی چیک اور بیلنس نہیں تھا ، لہذا پورا نظام متاثر ہوا۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ صوبائی اسمبلی نے نیا بلدیاتی قانون پاس کیا اور میئر کراچی اور دیگر شہروں کے میئر اور بلدیاتی اداروں کے چیئر مین مالی اختیارات سمیت کافی اختیارات رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ مقامی ٹیکس عائد کرسکتے ہیں ، ترقیاتی کاموں کو انجام دے سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سندھ میں 29 اضلاع ، ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن ، 6 ڈی ایم سی ، 3 میونسپل کارپوریشن ، 24 ضلعی کونسلیں ، 37 میونسپل کمیٹیاں ، 147 ٹاون کمیٹیاں ، 560 یونین کمیٹیاں اور 1175 یونین کونسلز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب کام کر رہے ہیں اور یہ واحد صوبہ سندھ ہے جس میں باضابطہ بلدیاتی ادارے موجود ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے یہ تاثر رد کیا کہ لوگ تھرپارکر میں بھوک سے مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ خیال ان لوگوں نے تیار کیا ہے جنہوں نے کبھی تھر کا دورہ نہیں کیا اور اب تھر صوبے کا ایک بہترین ترقی یافتہ شہر ہے جس میں ایک وسیع اور بہترین روڈ نیٹ ورک ہے ، روزگار کے بہترین مواقع ہیں اور ایک اچھی اور تمام سہولیات سے لیس ہسپتال (ڈی ایچ کیو مٹھی) موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ تھرپارکر میں صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور آر او پلانٹس کے ذریعہ تھر کے لوگوں کو روزگار ، پانی کی سہولت دے کر انکے طرز زندگی کو تبدیل کیا ہے۔ہاں ، لوگ آر او پلانٹس پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن جب بھی تھر میں کسی بھی آر او پلانٹ کو کسی بھی وجہ سے غیر کارآمد بنایا گیا تو علاقے کے لوگ پلانٹ کو چلانے کے لئے احتجاج کرنا شروع کردیتے ہیں جو آر او پلانٹس کی کارکردگی اور افادیت کا مظہر ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلی سندھ نے کہا کہ پنجاب میں پانچ آئی جی پولیس کے تبادلہ کر دیئے گئے ہیں لیکن جب سندھ کی صوبائی کابینہ نے آئی جی پولیس کی تبدیلی کی درخواست کی تو وفاقی حکومت نے غیر معقول رویہ کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ یہاں مختلف فورمز ہیں جو اسکیموں کو منظور کرتے ہیں اور ضلعی ترقیاتی کمیٹی کو 20 ملین روپے کی اسکیموں کی منظوری کا اختیار ہے ، متعلقہ سکریٹری کے ماتحت محکمہ ڈویلپمنٹ بورڈ 40 ملین روپے کی اسکیم کو منظوری دے سکتا ہے ، چیئرمین پی اینڈ ڈی کے تحت ڈیپارٹمنٹ ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (ڈی ڈی ڈبلیو پی) 10،000 ملین روپے کی منظوری کا اختیار رکھتی ہے۔

10،000 ملین روپے سے زائد اسکیمیں منظوری کے لئے وفاقی حکومت کو ارسال کی جاتی ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ پورے سندھ میں امن و امان بحال ہوا ہے۔ کوئی بھی کسی بھی وقت پورے سندھ میں کسی بھی سڑک پر سفر کرسکتا ہے ، انھوں نے کہا کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کا مسئلہ ہے جس کو منظم انداز میں کنٹرول کیا جارہا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے سول سروس میں نئے آنے والوں کے ہر ایک سوال کا جواب دیا۔