کرونا وائرس ، پاکستانی طلباء کی واپسی کیلئے اقدامات ، فاقی کابینہ کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، ہائی کورٹ کی ہدایت

وہان میں مومنٹ پر سختی صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں سب کیلئے ہیں، ہمارے وہاں یونیورسٹی سے بات ہورہی ہیں، دو آفیشل بھی وہاں گئے اور باقاعدہ کچھ لوگوں سے ملے،، وہان شہر میں 60 ملین لوگ رہتے ہیں، کوئی بھی کہیں نہیں جاسکتا،نمائندہ وزارت خارجہ کا بیان

ہفتہ 22 فروری 2020 13:53

کرونا وائرس ، پاکستانی طلباء کی واپسی کیلئے اقدامات ، فاقی کابینہ کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2020ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرونا وائرس کے باعث چین میں پھنسے پاکستانی طلباء کی وطن واپسی کیلئے اقدامات کیس میں وز ارت خارجہ کے نمائندہ کو ہدایت کی ہے کہ وفاقی کابینہ کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں جبکہ نمائندہ وزارت خارجہ نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہان میں مومنٹ پر سختی صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں سب کیلئے ہیں، ہمارے وہاں یونیورسٹی سے بات ہورہی ہیں، دو آفیشل بھی وہاں گئے اور باقاعدہ کچھ لوگوں سے ملے،، وہان شہر میں 60 ملین لوگ رہتے ہیں، کوئی بھی کہیں نہیں جاسکتا، چائنیز حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستانی طلباء کو اپنے شہریوں کے طرح دیکھا جارہا ہے۔

ہفتہ کو کرونا وائرس کے باعث چین میں پھنسے پاکستانی طلباء کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی۔

(جاری ہے)

چین میں پھنسے پاکستانی طلباء کے والدین اور وزارت صحت اور وزارت خارجہ کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔ نمائندہ وزارت خارجہ نے بتایاکہ آپکی ہدایت پر ہم نے والدین سے ملاقات کی، اس بارے میں عدالت کو بتائیں گے، گزشتہ سماعت کے بعد ہم نے ہر بندے سے رابطہ کیا۔

نمائندہ وزارت خارجہ نے کہاکہ وہان میں مومنٹ پر سختی صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں سب کے لیے ہیں، ہمارے وہاں یونیورسٹی سے بات ہورہی ہیں، دو آفیشل بھی وہاں گئے اور باقاعدہ کچھ لوگوں سے ملے۔ وکیل درخواست گزار نے کہاکہ وزارت خارجہ کے دو آفیشل وہان گئے انکا کسی ہو پتہ نہیں تھا، وہان میں بچوں کو کھانے کا سخت مسئلہ ہے، وزیراعظم کے دو مشیروں کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے بچوں کو لانے سے انکار کیا تھا۔

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ معاونین نے کہا کہ بچوں کو نہیں لاسکتے باقی اگر کوئی مسئلہ ہو تو بتائیں، والدین اور بچوں سے رابطے کے لئے کوئی طریقہ کار بنانے کی استدعا کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اللہ کا شکر ہے کہ وہان میں مقیم طلباء ابھی تک بچے ہیں، حکومت پاکستان ڈائریکٹ ان بچوں سے رابطہ کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ والدین کے جو تین مطالبات ہیں اس پر کام کرنا چاہیے، والدین کے ساتھ بیٹھ کر انکو مطمئن کرنا ہے، ان کی تسلی کے لیے جو بھی میکنزم بنانا ہے وہ آپ کریں مگر والدین کو اعتماد میں لے۔

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ بچوں کو وہان سے کسی دوسرے شہر میں منتقل کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کو چائنا کہ کسی بھی شہر میں رکھیں، یہ عدالت کسی قسم کا آرڈر جاری نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین کی باتیں بڑی فئیر ہیںچیف جسٹس نے والدین کے وکیل سے استفسار کیاکہ جن ممالک نے اپنے لوگوں کو واپس کیا وہاں وائرس شروع ہوگیا، آپ کیا چاہتے ہیں کہ کیا میکنزم بن جائی ۔

وکیل درخواستگزار نے کہاکہ ہم ان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، ہم ایک ساتھ بیٹھ کر میکنزم بنانا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ بچوں کو نہ کھانا اور نہ پانی مل رہا، یونیورسٹی کی جانب سے ریسٹرکشن ہے۔وزارت خارجہ کے نمائندے نے چائنیز حکومت کا موقف عدالت میں پیش کیا جس میں کہاگیاکہ ہر بچے کو بروقت کھانا پینا ملا، وہاں مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی کھانا نہیں دیا جارہا، وزیراعظم عمران خان کا چائنیز صدر سے بھی رابطہ ہوا ہے، وہان شہر میں 60 ملین لوگ رہتے ہیں، کوئی بھی کہیں نہیں جاسکتا۔

نمائندہ وزارت خارجہ نے کہاکہ چائنیز حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستانی طلباء کو اپنے شہریوں کے طرح دیکھا جارہا ہے۔وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ایک فوکل پرسن ہمارا ہوگا ایک انکا ہوگا، ہم ایک ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، ہم چائنیز حکومت اور پاکستانی حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہیں۔نمائندہ وزارت خارجہ نے کہاکہ ہمیں والدین وہ لسٹ دیں جن کے ساتھ ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ہمارے بچے کہتے ہیں کہ ہمیں نہ دن کو سکون ہے اور نہ ہی رات کو۔ چیف جسٹس نے نمائندہ وزارت خارجہ سے استفسار کیا کہ ابھی تک وفاقی کابینہ نے اس پر کوئی فیصلہ لیا ہی وفاقی کابینہ میں اس پر بحث ہوئی ہے مگر کسی فیصلے کا مجھے علم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ لوگوں نے والدین کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ بچوں کو نہیں لارہے۔

چیف جسٹس نے نمائندہ وزارت خارجہ سے استفسار کیا کہ وفاقی کابینہ کے آئندہ میٹنگ میں کوئی فیصلہ کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ان والدین کا نمائندہ ساتھ رکھ کر کوئی میکنزم بنائے، طلباء نے اس عدالت کو ڈائریکٹ اپروچ کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ والدین اور بچوں کی جو بھی تحفظات ہیں ان کو حل کرنے کے لئے میکنزم بنائے، اس مسلے کو اعلیٰ سطح پر حل کرنے کی کوشش کریں۔

چین میں مقیم طلباء نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھی گئی درخواست وزارت نمائندہ کے حوالے کی ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈی جی وزارت خارجہ کو طلبا کا خط دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بچوں کے اس خط کو وفاقی کابینہ میں اس پر بحث کریں۔ وکیل نے استدعا کی کہ ہمارے بچوں کو وہان سے منتقل کریں، عدالت کوئی ایسا آرڈر جاری کریں۔ نمائندہ وزارت خارجہ نے کہاکہ آئندہ سماعت سے پہلے مجھے والدین اپنے بچوں کی لسٹ دیں، بچوں کا نام دیں ہم وہاں کے یونیورسٹی کے آفیشل لیٹر میں عدالت کو سب کچھ بتادونگا۔

چیف جسٹس نے نمائندہ وزارت خارجہ سے مکالمہ کیا کہ والدین کی جو انزائٹی ہے اسے ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ماسوائے پاکستان کے، بچوں کے والدین نے کہاکہ پورے دنیا اپنے بچوں کو لیکر گئے۔وکیل اپنے چین میں مقیم اپنے بچوں کا حال بتاتے ہوئے عدالت میں آبدیدہ ہوگئے ۔ وکیل نے کہاکہ انہوں نے گزشتہ سماعت پر کہا تھا والدین کو مطمئن کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین اپنا نمائندہ دیں گے اور آئندہ کے وفاقی کابینہ میں زیر بحث لائے، وفاقی حکومت ان بچوں تک پہنچ جائے ان سے رابطہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ان تمام بچوں کی زمہ داری حکومت پاکستان کی ہے۔وکیل نے کہاکہ وزیراعظم کے معاون زلفی بخاری نے اس مسلے کو وفاقی کابینہ میں زیر بحث لانے کا وعدہ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین اپنا نمائندہ وزارت خارجہ کو دیں، یہ عدالت حکومتی پالیسیوں میں مداخلت نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کے ساتھ کوئی ایکسپرٹیز نہیں ہے، وفاقی کابینہ سب سے بڑی پلیٹ فارم ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ وفاقی کابینہ کو کوئی فیصلہ کرنے دیں، کیس پر سماعت آئندہ جمعے کو پھر ہوگی۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ حکومت کوئی چیز جان کر نہیں کررہی۔ چیف جسٹس نے وزارت خارجہ کے نمائندے کو ہدایت کی کہ وفاقی کابینہ کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 28 فروری تک ملتوی کر دی گئی ۔