افغانستان کے مسئلے کا پر امن حل آسان نہیں تھا اور نہ ہے،وزیر خارجہ

ایسے عناصر موجود ہیں جو اس ساری صورتحال کو خراب کرنے کے درپے ہیں ہمیں ان عناصر سے باخبر رہنا ہو گا،افغانستان میں قیام امن سے پاکستان سمیت پورے خطہ مستفید ہو گا،پاکستان کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط ہوں گے،افغانستان کی تعمیر نو میں پاکستان کو کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا ،پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے گا، شاہ محمود قریشی کا بیان

ہفتہ 22 فروری 2020 13:53

افغانستان کے مسئلے کا پر امن حل آسان نہیں تھا اور نہ ہے،وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2020ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل کے حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا پر امن حل آسان نہیں تھا اور نہ ہے،ایسے عناصر موجود ہیں جو اس ساری صورتحال کو خراب کرنے کے درپے ہیں ہمیں ان عناصر سے باخبر رہنا ہو گا،افغانستان میں قیام امن سے پاکستان سمیت پورے خطہ مستفید ہو گا،پاکستان کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط ہوں گے،افغانستان کی تعمیر نو میں پاکستان کو کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا ،پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے گا ۔

ایک بیان میں انہوںنے کہاکہ افغانستان کے مسئلے کا پر امن حل آسان نہیں تھا اور نہ ہے،سب سے پہلے تو ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے ممکن نہیں ،جامع مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا،دوسری بات یہ ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے آمادہ کرنا بھی آسان نہیں تھا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ آپ کے علم میں ہے کہ 19 برس تک وہ آپس میں لڑتے رہے،جب افغانستان میں ایک ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ کی طرف سے ٹویٹ آیا کہ انہوں نے افغان امن مذاکرات معطل کر دیے ہیں تو ہماری کوشش تھی کہ مذاکرات جلد دوبارہ بحال ہوں۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان نے دو مغویوں کو چھڑانے میں اپنا کردار ادا کیا، دوحہ کے اندر مذاکرات کا شروع ہونا آسان نہیں تھا ۔ انہوںنے کہاکہ خوشی کی بات یہ ہے کہ دونوں فریق کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تفصیلات طے کر لی ہیں ہم ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں ہمیں تشدد میں کمی بھی لانا ہے اور انشاء اللہ 29 تاریخ کو اس معاہدے پر دستخط بھی کرنا ہیں۔

انہوںنے کہاکہ آج امریکہ سمیت پوری دنیا ہمارے کردار کو سراہا رہی ہے چند روز قبل افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ایمبیسڈر زلمے خلیل زاد، اسلام آباد تشریف لائے ،وزیراعظم عمران خان اور میرے ساتھ انکی تفصیلی ملاقات ہوئی اور یہ سارے معاملات جو اب منظر عام پر آ رہے ہیں ان پر ہماری تفصیلی مشاورت بھی ہوئی اور ہم نے ایک روڈ میپ طے کیا۔

انہوںنے کہاکہ میں نے ایمبیسڈر زلمے خلیل زاد کو یہ بھی کہا کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو اس ساری صورتحال کو خراب کرنے کے درپے ہیں ہمیں ان عناصر سے باخبر رہنا ہو گاکیونکہ ایک طبقہ ہے جو جنگ کی کیفیت سے مستفید ہو رہا ہے امریکہ اور اس کے حلیفوں کو ان عناصر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی دیانتداری اور پاکستان کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں کہ بات یہاں تک پہنچی ہے امید ہے کہ یہ بات مزید آگے بڑھے گی۔

انہوںنے کہاکہ جب امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان تشریف لائے اور میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اس وقت پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ تھا تو میں نے ان سے پاک امریکہ تعلقات کو از سر نو استوار کرنے کے حوالے سے بات کی - ان کا کہنا تھا کہ بہتری کا یہ راستہ کابل سے مشروط ہے آج میں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے ہم نہ کابل تک کا سفر طے کر لیا ہے ہم نہ صرف ایک مستند وفد کو سامنے لے کر آئے بلکہ اس وفد نے مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا۔

انہوںنے کہاکہ اب یہ افغانستان کی قیادت کی ذمہ داری ہے جنہوں نے اس جنگ کی بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کی ہے اس قیادت کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ افغانستان کے عوام تو امن چاہتے ہیں اب یہ خواص پر منحصر ہے کہ وہ امن کی کاوشوں کو آگے بڑھاتے ہیں یا اسے سیاسی رسہ کشی کی نظر کرتے ہیں اس کی تمام ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے پاکستان پر نہیں۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط ہوں گے کیونکہ پاکستان کے بغیر ان معاملات کا آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ انہوںنے کہاکہ 29 فروری کے بعد کوشش ہے کہ ایک جامع وفد تشکیل پائے جس سے انٹرا افغان مذاکرات کی طرف بڑھا جائے - یہ مذاکرات کب اور کیسے ہوں گے اس کو بھی کر لیا گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے خلوص اور نیک نیتی سے افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کیا ہے اب افغانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے