کورونا کے علاج کے دوران غیرانسانی سلوک کبھی نہیں بھولوں گا

ایسا وقت بھی آیا جب مجھے کھانا نہیں دیا گیا،کورونا کی کوئی علامت نہیں تھی پر ذہنی مریض بن چکا تھا،اسپتال میں سنتا تھا کہ میری میت رشتہ داروں کو نہیں دی جائے گی،نامعلوم مقام پر دفنایا جائے گا

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 6 اپریل 2020 15:52

کورونا کے علاج کے دوران غیرانسانی سلوک کبھی نہیں بھولوں گا
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 اپریل2020ء) کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے چارسدہ کے ایک نوجوان محمد سلمان نے دوران علاج آپ بیتی سناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتا تھا،فروری میں اسے سینے اور پیٹ میں درد ہوا تو چیک کرانے پر ڈاکٹروں نے اپینڈکس آپریشن تجویز کیا۔میں نے وہاں آپریشن کرانے کی بجائے پاکستان آکر علاج کا فیصلہ کیا۔

یہاں چیک کرانے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ پھیپھڑوں میں سوجن ہے، دوائی دینے سے کافی حد تک ٹھیک ہوگیا۔اس دوران مارچ میں کورونا وائرس کے پھیلنے کی باتیں ہونے لگیں۔اچانک محکمہ صحت کی طرف سے فون آیا کہ اس کا چیک اپ کرنا ہے۔13 مارچ کو اسپتال بلا کر ایک کمرے میں بند کر کے باہر دو گارڈ کھڑے کردیے گئے۔میری رپورٹ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجی گئی جو پازیٹو آگئی۔

(جاری ہے)

اس کے بعد میری اصل آزمائش شروع ہوئی اور میری تصویر تک ٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے لگیں۔ڈاکٹروں اور طبی عملے نے میرا چیک اپ بند کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس حفاظتی سامان نہیں۔باقی دنیا سے میرا رابطہ صرف موبائل پر تھا۔اسپتال میں افواہ تھی کہ اگر میں مر گیا تو میری میت گھر والوں کو بھی نہیں دی جائے گی اور کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیا جائے گا۔

گاؤں میں موجود میرے خاندان کو قرنطینہ کر دیا گیا اور ان کا حقہ پانی بند ہوگیا۔میرے بھائی اور بیوی کے ٹیسٹ خوش قسمتی سے نیگیٹو آئے۔میں اسپتال میں پڑا ہر وقت اپنے اور گھر والوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ایسا وقت بھی آیا کہ مجھے اسپتال میں کھانا دینا بند کر دیا گیا۔میں نے چینل کو فون کیا تو طبی عملے کو ہوش آیا اور پھر کھانا دیا گیا لیکن دوائیں پھر بھی نہ دی گئی۔

مجھے کورونا کی کوئی علامت نہیں تھی لیکن میری ذہنی حالت خراب ہوچکی تھی۔میڈیکل عملہ فون پر میری حالت کے بارے میں پوچھتا تھا اور مجھے تسلی دیتا تھا۔سترہ دنوں بعد میری رپورٹ نیگٹو آئی تو میری جان چھوٹی۔میں ساری رات سونہ سکا، اگلے دن مجھے گاڑی میں بٹھا کر گھر چھوڑ دیا گیا۔مجھے قید تنہائی اور اس دوران سنائی دی جانے والی افوائیں اور غیر انسانی سلوک کبھی نہیں بھولے گا۔