ذہنی صحت ایک عالمی مسئلہ - ترجیحی بنیادوں پر حل کی ضرورت

ذہنی صحت کو اگر اس وقت عالمی ترجیح قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ آج کی دنیا میں ذہنی صحت کے مسائل میں ہوتا مسلسل اضافہ بذات خود خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے

جمعہ 1 مئی 2020 11:22

ذہنی صحت ایک عالمی مسئلہ - ترجیحی بنیادوں پر حل کی ضرورت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 01 مئی2020ء) ذہنی صحت کو اگر اس وقت عالمی ترجیح قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ آج کی دنیا میں ذہنی صحت کے مسائل میں ہوتا مسلسل اضافہ بذات خود خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے- پاکستان ایک ایسا کم آمدنی والا ملک ہے جسے صحت کے شعبے میں کئی بڑی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ ٹی بی، پولیو، ایچ آئی وی / ایڈز اور ڈینگی کی وبا اور قدرتی آفات وغیرہ- ایسے میں معاشی ترقی کے لیے جدوجہد کرنے والے ملک کا ذہنی صحت کے مسائل کو ترجیج دینا یقیناً اپنے آپ میں خود ایک بڑا چیلنج ہے-

محققین کے اندازے کے مطابق ملک کی کل آبادی (207.74 ملین) کا کم سے کم 10 سے 16 فیصد حصہ درمیانی نوعیت سے لے کر شدید توعیت کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے اور یہ صورتحال بھی دنیا بھر میں پھیلنے والی وبا کورونا وائرس سے قبل کی ہے۔

(جاری ہے)

سال 2009 میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او اور پاکستان کے اشتراک سے کی جانے والی ایک تحقیق کے دوران یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ پاکستان میں ذہنی عارضے میں مبتلا ہر 33 ہزار افراد کے لئے صرف ایک نفسیاتی ماہر ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ اعداد و شمار ایک دہائی قبل کے ہیں- اس وقت پورے ملک میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے صرف 5 اسپتال قائم ہیں جو کہ ذہنی مریضوں کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں-

ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی میں ہی اس وقت 20 لاکھ سے زائد ایسے افراد ہیں جو مختلف قسم کے ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں ذہنی، جذباتی، فکری یا معاشرتی رابطوں کی خرابی شامل ہے- پاکستان ایسوسی ایشن برائے دماغی صحت (پی اے ایم ایچ) کے مطابق کم از کم 0.3 ملین افراد کو فوری طور پر نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے نفسیاتی امراض کا شکار بننے والے افراد کے بارے میں انکشاف ہونا ابھی باقی ہے-

ایسے ہی ایک ذہنی مرض شیزوفینیا کا شکار 39 سالہ آمنہ ( رازداری قائم رکھنے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) بھی ہیں- آمنہ نے ایک معروف یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا لیکن ان کی شادی شدہ زندگی کامیاب نہ ہوسکی- انہیں دو بار طلاق کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پہلی شادی کے 6 ماہ بعد انہیں اسقاطِ حمل کی تکلیف سے بھی گزرنا پڑا- آمنہ اپنے والدین کو تو کم عمری میں ہی کھو چکی تھیں جبکہ بہن بھائی بھی اپنے اپنے خاندان کی مصروفیات میں مگن تھے- آمنہ اپنی زندگی کے قیمتی 15 سال تو صرف درست ذہنی مرض کی تشخیص میں ہی گنوا چکی تھیں- جس کے بعد انہیں ان کے ایک دوست نے کاروانِ حیات ، انسٹی ٹیوٹ برائے مینٹل ہیلتھ کیئر (کے ای ایچ) جا کر اپنا علاج کروانے کا مشورہ دیا، جس نے کے ایچ کی جامع خدمات کے بارے میں سن رکھا تھا۔

آمنہ کا کہنا ہے وہ خدا پر ایمان رکھتی ہیں- آمنہ اس ادارے میں علاج کے طریقہ کار کو بہت پسند کرتی ہیں جس میں انہیں سلائی کڑھائی اور یوگا سیکھنا زیادہ پسند ہے- اس کے علاوہ آمنہ کو نرسوں کا رویہ بھی پسند ہے جو کہ شام میں ان کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں- لیکن آمنہ جیسے کتنے ہی ایسے افراد ہیں جن کے مرض کی درست تشخیص اور علاج ایک سوالیہ نشان ہے-

دوسری جانب محققین پہلے ہی عالمی رہنماؤں کو متنبہ کرچکے ہیں کہ اب ہر ملک میں ذہنی صحت کی موجودہ سطحوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔

اس وقت لوگ موجودہ صورتحال اور خوف سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس وقت درست سمت کی ہے جس کا تعین کسی چیلنج سے کم نہیں- کراچی کی عوام کے لیے کاروان حیات دماغی صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے ایک امید کی کرن ہے- جہاں وہ ایک چھت کے نیچے مفت یا رعایت کے ساتھ علاج معالجے اور بحالی کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔ ادارے کی خدمات صحت عامہ کے بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہیں- کے ای ایچ اپنی خدمات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اور عوام کو مسائل کا حل فراہم کرنے کے لیے مستقل جدوجہد کر رہا ہے-
کاروانِ حیات، انسٹی ٹیوٹ برائے دماغی صحت کے چیف ایگزیکٹو جناب ظہیر الدین بابر کا کہنا ہے کہ “ ذہنی صحت سے متعلق عوامی تعلیم اور آگاہی مہم بڑھتے ہوئے مسائل سے نمٹنے میں آسانی فراہم کرسکتی ہے“۔


انہوں نے مشورہ دیا کہ ذہنی بیماریوں کے علاج اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے روزانہ صحت مند جسمانی اور ذہنی سرگرمیاں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
مستقبل اور کورونا وائرس کے نفسیاتی اثرات کی تلاش کے لیے کیے جانے والے مطالعے متاثرہ آبادی کو سمجھنے اور ان کے علاج معالجے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وبائی مرض کا دنیا بھر کے افراد پرایک اہم نفسیاتی اثر پڑ رہا ہے جس کا ثبوت میڈیا پر جاری ہونے والی خوف و ہراس اور اضطراب پر مبنی مختلف رپورٹس ہیں۔