لاک ڈائون کے بعد صارفین کی عادات و ترجیحات میں تبدیلی آئی، کاروباری برادری کو نئے رجحانات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہو گا، میاں زاہد حسین

بدھ 27 مئی 2020 15:36

لاک ڈائون کے بعد صارفین کی عادات و ترجیحات میں تبدیلی آئی، کاروباری ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مئی2020ء) ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئلز فور م و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پہلی بار لاک ڈائون کا تجربہ کیا گیا ہے جس کے بعد صارفین کی عادات اور ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے اور کاروباری برادری کو نئے رجحانات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہو گا۔

بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عوام تقریباً 2 ماہ تک لاک ڈائون برداشت کر چکی ہے اور اس میں مزید توسیع کا امکان ہے تاہم ضرورت اس چیز کی ہے کہ ایس او پیزکی پابندی کے ساتھ تمام مارکیٹوں، کاروباروں، دفتروں، بینکوں اور چھوٹی بڑی صنعتوں کو مکمل طور پر 24 گھنٹے اوقات کار کی بنیاد پرکھولا جائے تاکہ عوام کی معاشی مشکلات دور ہوں اور حکومت کو ریونیو کی کمی کا جو سامنا ہے اس کا تدارک ہو سکے، پاکستانیوں کو بھوک سے مرنے یا بیماری سے مرنے کی بجائے ایک ذمہ دار قوم کی طرح ایس او پیزکی پابندی کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ لاک ڈائون کے دوران زیادہ تر کاروبار بند رہے جبکہ عوام کو زبردست مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس سے انہیں بچت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے، لاک ڈائون کے دوران زیادہ تر افراد نے صرف اہم ضروریات زندگی پر اخراجات کئے اور لاک ڈائون کے مستقل طور پر ختم ہونے کے بعد بھی عوام پہلی جیسی شاپنگ اور فضول خرچی نہیں کرے گی بلکہ برے وقت کیلئے بچت کو ترجیح دے گی جس سے بہت سے کاروبار متاثر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار جان لیں کہ اب اشیا اور خدمات کی وہ مانگ نہیں رہے گی جو کبھی ہوا کرتی تھی کیونکہ مستقبل کے اندیشے عوام کو بچت کی جانب راغب رکھیں گے۔ کارخانہ داروں کو ضروری ساز و سامان کے لئے ایک سے زیادہ ذرائع اختیار کرنا ہوں گے اور کاروبار جاری رکھنے کیلئے آن لائن بزنس میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔ پاکستان زیادہ تر اشیا چین سے درآمد کرتا ہے جس میں زپ اور بٹن تک شامل ہیں جبکہ مقامی فارما سیکٹر مکمل طور پر بھارت پر انحصار کرتا ہے جس پر اب غور کرنا ہو گا جبکہ حکومت کو خام مال کی مقامی طور پر تیاری کو اپنی پالیسیوں میںترجیح دینا ہو گی۔

پاکستان کے بہت سے ایکسپورٹ آرڈر اس لئے کینسل ہو گئے کہ چین سے بروقت سامان نہیں پہنچا جس سے ملکی ساکھ اور آمدنی پر ضرب پڑی ہے۔ لاک ڈائون سے درجنوں چھوٹے کاروبار، سیاحت، ہوٹل، ریسٹورنٹ، شادی ہال اور انٹرٹینمنٹ کا بزنس تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور ان میں سے اکثریت دوبارہ اپنا کاروبار چلانے کے قابل نہیں رہی ہے جبکہ بڑا کاروبار کرنے والوں کو بھی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ مغربی ممالک اندیشوں کے پیش نظربرآمدات کی جانچ پڑتال کے قوانین کو زیادہ سخت کر دیںگے جس سے نمٹنا چیلنج ہو گا۔

آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی اہمیت تیزی سے بڑھے گی، ادائیگیوں کا نظام خود کار ہوتا جائے گا، صحت کے شعبہ کی اہمیت، مانیٹرنگ اور مانگ میں اضافہ ہو جائے گا اور جو کمپنیاں ٹیکنالوجی کے معاملہ میں سستی کریں گی وہ اپنا نقصان کریں گی۔