صدر ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے امریکی شہریوں اوربائیں بازو کی تنظیم انٹیفا کو دہشت گرد قراردیدیا

دائیں بازو کے پرتشددگروہ ”وائٹ سپرمیسسٹ“ کے خلاف کسی کاروائی کا اعلان نہیں کیا گیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 1 جون 2020 15:42

صدر ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے امریکی شہریوں اوربائیں بازو کی تنظیم انٹیفا ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم جون۔2020ء) امریکا میں سیاہ فام شہری کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد فسادات متعدد ریاستوں اور شہروں تک پھیل گئے اور کرفیو نافذ کردیا گیا ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیں بازو کی تنظیم انٹیفا کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کردیا ہے.  تاہم امریکی صدر دائیں بازو کے پرتشددگروہ جو خود کو ”وائٹ سپرمیسسٹ“کہلاتے ہیں ان کے خلاف کسی کاروائی کا اعلان نہیں کیا کیونکہ سیاہ فام اوردیگر اقلیتی کمیونٹیزکے مقابلے میں وہ سفید پولیس والوں کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں ”وائٹ سپرمیسسٹ“ سفید فام برتری کے نعرے لگاتے نظرآتے ہیں سوشل میڈیا پر بھی وہ خاصے متحرک نظرآتے ہیں.

(جاری ہے)

ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران اور صدارت سنبھالنے کے بعد بھی سفید فام انہتا پسندوں کی نہ صرف کھل کے حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ اقلیتی کمیونٹیوں کی جانب سے انہیں امریکی ”وائٹ سپرمیسسٹ “ کا سرپرست قراردیا جاتاہے. امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدرٹرمپ کو عارضی طور پر وائٹ ہاﺅس کے ہائی سیکورٹی والے بنکر میں منتقل کیا گیا تھا جبکہ وائٹ ہاﺅس کی ایک ترجمان نے ان اطلاعات کوبے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قراردیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر کو وائٹ ہاﺅس سے نکال کسی اور محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے.

ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاﺅس کے سامنے بڑی تعداد میں شہری جمع ہوئے اور احتجاج کیا جنہیں منتشرکرنے کے لیے پولیس نے آنسوگیس کا استعمال کیا تاہم مظاہرین وائٹ ہاﺅس کے اندر گھسنے کی کوئی اطلاع نہیں یہ صر ف سوشل میڈیا پر کی جانے والی قیاس آرائیاں ہیں. امریکا کی مختلف ریاستوں میں پرتشدد احتجاج اور لوٹ مار کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری ہے حکام نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سمیت کئی اہم شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے حکام نے بدامنی کا مرکز بننے والے شہروں واشنگٹن ڈی سی، ہیوسٹن، منیاپولس اور لاس اینجلس میں رات کا کرفیو نافذ کیا ہے شکاگو، ،میامی، ڈیٹرائٹ اور فلاڈیلفیا بھی ان 40 شہروں میں شامل ہیں جن میں رات کے وقت مظاہرے کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے امریکہ کی ریاستوں ٹیکساس اور ورجینیا میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے.

دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے میئر کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کرفیو کا نفاذ رات 11 بجے سے صبح چھ بجے تک ہو گا آج ایک مرتبہ پھر منیاپولس، لاس اینجلس اور واشنگٹن ڈی سی سمیت کئی شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں پرتشدد احتجاج کے دوران دکانوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے. نیو یارک اور میامی میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے جب کہ وائٹ ہاﺅس سے ملحقہ پارک میں مظاہرین کے احتجاج کے بعد مظاہروں سے نمٹنے والی فورس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے ساتھ نیشنل گارڈز کو بھی مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے مقامی راہنماﺅں نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی موت پر تشدد کے بجائے اپنے مطالبات حکام کے سامنے رکھیں.

واضح رہے کہ گزشتہ پیر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنے گھٹنے سے دباو¿ ڈال رہا تھا جو بعد میں دم توڑ گیا تھا اس شخص کی شناخت 46 سالہ جارج فلائیڈ کے نام سے ہوئی تھی جو ایک مقامی ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ تھا. پولیس نے الزام عائدکیاتھا کہ کہ فلائیڈ کو ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور کے قریب سے 20ڈالر کا ایک جعلی نوٹ استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا لیکن اس نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی کوشش کی‘جبکہ مقامی کمیونٹی نے پولیس کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ خالصتا نسل پرستی کی بنیاد پر پیش آیا.

واقعے کے بعد ریاست منی سوٹا کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا تھا اس دوران سینکڑوں شہری سڑکوں پر نکلے اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی‘بعد ازاں یہ مظاہرے مختلف ریاستوں اور شہروں میں پھیلتے گئے اور پرتشدد ہنگاموں کی شکل اختیار کر گئے اس دوران لوٹ مار اور جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے. امریکہ کا فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے معاملے پر اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے.

مقدمہ درج ہونے کے باوجود پ±ر تشدد احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس میں سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ مظاہرین کتبے اٹھائے سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں جن میں سے کئی بینرز پر ”میں سانس نہیں لے سکتا“ کی عبارت درج ہے. یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں پولیس کی حراست میں کسی سیاہ فام شہری کی ہلاکت ہوئی ہو 2014 میں نیو یارک میں ایک سیاہ فام شخص پولیس کی زیرحراست ہلاک ہو گیا تھا ایرک گارنر نامی سیاہ فام شخص کو کھلے سگریٹس کی غیر قانونی فروخت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا.

پولیس اہلکار نے ایرک گارنر کی گردن پر گھٹنا رکھا تھا جس پر اس نے 11 دفعہ کہا تھا کہ ”میں سانس نہیں لے سکتا“ جس کے بعد یہ جملہ پولیس تشدد کے خلاف نعرے کے طور پر سامنے آیا‘ اس واقعے کے پانچ سال بعد گزشتہ سال نیو یارک پولیس کے ایک اہلکار کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا. دوسری جانب امریکی جریدے ”نیویارک ٹائمز“ نے رپورٹ کیا ہے کہ سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے معاملے پر شدید احتجاج کے بعد سیکرٹ سروس کے اہلکاروں نے جمعے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاﺅس میں زیرِ زمین بنکر میں منتقل کر دیا تھا‘احتجاج کے دوران مظاہرین نے پولیس کے بیریئرز پر پتھراﺅ کیا تھا جس کے بعد سیکرٹ سروس نے فوری طور پر صدر ٹرمپ کو بنکر میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا‘یہ زیرزمین بنکر ہنگامی حالت میں استعمال کیا جاتا ہے جب امریکی صدر کو کوئی خطرہ محسوس ہو صدر ٹرمپ نے اس بنکر میں ایک گھنٹے سے زائد وقت گزارا تھا.

ادھر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدرڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ 6 روز سے احتجاج کرنے والے شہریوں کو مقامی دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر لوٹ مار کرنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں بائیں بازو کی سخت گیر تنظیم انٹیفا کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ مظاہرین کودوسری ریاستوں سے آکر فسادات میں ملوث ہورہے ہیں.

انہوں نے کہا کہ نیشنل گارڈ نے مینیسوٹا اور میناپولیس میں پہنچ کر فوری کارروائی کی اور انٹیفا کی سرکردگی میں دیگر انارکی پھیلانے والوں کو خاموش کروا دیا، میئر کو پہلے ہی اس طرح کے اقدامات کرنے چاہیے تھے تاکہ اس مشکل میں نہیں پڑتے. انہوں نے کہا کہ جن شہروں اور ریاستوں میں ڈیموکریٹس کی حکمرانی ہے انہیں مینیا پولس میں بائیں بازو کے جرائم پیشہ وروں کو روکنے کے عمل کو دیکھنا چاہیے‘انہوں نے کہا کہ نیشنل گارڈ نے بہترین کام کیا اور دیگر ریاستوں میں بھی اس کااستعمال ہونا چاہیے قبل اس کے کہ تاخیر ہوجائے ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکا انٹیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے گا.

مینیا پولس اور سینٹ پال دونوں جڑواں شہروں میں احتجاج میں شدت ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے مرکزی شاہراہ کی طرف مارچ کیا خاتون شہری مونا عابدی کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاہ فام بیٹے، بھائی اور دوست ہیں اور ہم انہیں مرتے نہیں دیکھنا چاہتے، ہم اس طرح کے واقعات سے تھک چکے ہیں، یہ نسل اس کی متحمل نہیں ہوسکتی، ہم ظلم سے تھک چکے ہیں.

انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو یقینی دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ زندہ رہیںجہاں پولیس اورنیشل گارڈ کے سینکڑوں اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے‘خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے مینیسوٹا میں سیاہ فام 46 سالہ شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد احتجاج میں شدت آگئی ہے. رپورٹ کے مطابق پولیس نے جعلی کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے شبہ میں جارج فلائیڈ کو حراست میں لیا تھا جہاں وہ دوران حراست دم توڑ گئے تھے‘شہری کی گرفتاری کے حوالے سے سامنے آنے والی ویڈیو میں دکھا گیا تھا کہ پولیس افسر ان کی گردن دبا رہے ہیں جبکہ جارج فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے پارہے ہیں.

جارج فلائیڈ کو بعدازاں مردہ قرار دیا گیا تھا اور ریاست میں شدید احتجاج شروع ہوگیا تھا بعد ازاں جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث سفید فام پولیس افسر ڈیریک چووین کو گرفتار کرکے اس کے خلاف تھرڈ ڈگری قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ڈیریک چووین ان 4 افسروں میں سے ایک ہیں جنہیں ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور ان کے خلاف تھرڈ ڈگری قتل کا مقدمہ درج کیا گیا‘ڈیریک چووین نے ہی جارج فلائیڈ کی گردن پر پوری طاقت سے 5 منٹ تک گھٹنا ٹکائے رکھا تھا جس سے سیاہ فام شخص کی موت واقع ہوئی.