لاہور ہائی کورٹ نے ننکانہ صاحب کی جگجیت کور عرف عائشہ کو مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی

جگجیت کور عرف عائشہ کی شیلٹر ہوم سے رہائی کا حکم سناتے ہوئے اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ بدھ 12 اگست 2020 23:48

لاہور ہائی کورٹ نے ننکانہ صاحب کی جگجیت کور عرف عائشہ کو مسلمان شوہر ..
لاہور (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12اگست2020ء) : لاہور ہائی کورٹ ننکانہ کی جگجیت کور عرف عائشہ کو مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی، جگجیت کور عرف عائشہ کی شیلٹر ہوم سے رہائی کا حکم سناتے ہوئے اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی، تفصیلات کے مطابق جگجیت کور جن کی عمر صرف 19 برس ہے ان کے والدین نے عدالت کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ محمد حسن نامی شخص نے ان کی بیٹی سے شادی کر کے اس کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ یہ کہانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عام ہوئی تھی جس کے بعد علاقے کے مسلمانوں اور سکھ برادری کے درمیان تعلقات جو روایتی طور پر بڑے دوستانہ رہے ہیں کشیدہ ہو گئے۔ سکھ برادری کے کئی لوگوں میں اس واقع کے بعد اشتعال اور غصے کے جذبات پیدا ہو گئے۔

(جاری ہے)

بیرونی دنیا سے بھی سکھوں کی سرکردہ شخصیات اور تنظیموں نے اس معاملے پر احتجاج کیا اور مبینہ طور پر زبردستی تبدیلیِ مذہب کے اس واقع کی مذمت کی۔

انہوں نے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں بسنے والے سکھوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جگجیت کور کا نام تبدیل کر کے عائشہ رکھا دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے محمد حسن سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اپنا مذہب بھی اپنی مرضی اور منشا سے تبدیل کیا ہے۔ عائشہ نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔

واضح رہے کہ عدالت کا فیصلہ عائشہ کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے سکھ والدین کی طرف سے شکایت کے بعد انہیں 'شیلٹر ہوم' میں زبردستی رکھنے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد عائشہ کو دوبارہ شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا جہاں عدالت کا تحریری حکم موصول ہونے تک ان کو رہنا پڑے گا۔

لڑکی کے گھر والوں نے عدالت کے سامنے لڑکی کے سکول کا جاری کردہ ایک سرٹیفیکٹ پیش کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سرٹیفیکیٹ کے مطابق لڑکی کی عمر پندرہ برس ہے اور وہ اپنی مرضی سے شادی کی عمر کو نہیں پہنچی۔ اس کے جواب میں صفائی کے وکلاء نے نیشل ڈیٹا بیس آتھارٹی (نادرا) کا ریکارڈ پیش کیا جس سے ثابت ہوا کہ عائشہ کی عمر 19 سال سے ذرا زیادہ ہے۔

اس کے بعد عدالت کی طرف سے عائشہ کا طبی معائنہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا جس سے عائشہ کی عمر 19 برس ہی ثابت ہوئی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عائشہ کے بھائی من موہن سنگھ نے کہا کہ ان کے گھر والوں کو عدالت کے احاطے میں لڑکی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ من موہن سنگھ نے دعوی کیا کہ ان کی بہن دباؤ کا شکار ہے اس لیے وہ درست فیصلہ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی برادری والے لاہور ہائی کورٹ کے باہر مظاہرہ کریں گے اور عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کریں گے۔