پاکستان: پرائیویٹ ڈاکٹر مسیحا ہیں یا ڈرگ ڈیلر؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 25 نومبر 2020 15:00

پاکستان: پرائیویٹ ڈاکٹر مسیحا ہیں یا ڈرگ ڈیلر؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 نومبر 2020ء) کورونا کے خوف اور خدشات کے باعث ایک دن بھی طبی معائنے کے بغیر بچی کو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اگلے دن تک کا انتظار کیسے کیا جائے؟ لہذا ہم اپنے ایک واقف کار کے بتائے ہوئے ڈاکٹر کے کلینک جا پہنچے۔ گزشتہ زندگی کے بیتے تجربات نے سکھایا تھا کہ ہر ڈاکٹر قابل بھروسہ نہیں ہوسکتا، سو دل میں یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر دل مطمئن نہ ہوا تو صرف معائنہ کروا لیں گے۔

کوئی ایمرجنسی صورتحال تو نہیں ہے، ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں گے، نسخہ لکھا بھی تو دوائیں لیے بغیر گھر چلے جائیں گے اور کل تک اپنے معالج کا انتظار کر لیں گے۔ مگر جناب ڈاکٹر کا بھی شاید ہم جیسوں سے پہلے بھی واسطہ پڑ چکا تھا۔ ان کے کلینک کا سیٹ اپ ایسا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی پشت پر ہی تمام ادویات کا ریک موجود تھا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر صاحب نے مریضوں کے لیے مخصوص اسٹول پر بیٹھی میری بیٹی سے علامات پوچھنا شروع کیں اور ہر علامت بتانے پر ایک دوا نکالتے اور میز پر دھرتے جاتے۔

ساتھ ہی کچھ سوالات بھی پوچھتے اور ساتھ ساتھ مزید دوائیں نکالتے جاتے۔ کم و بیش پانچ یا چھ کیپسول دیکھ کر میں بےاختیار بول اٹھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ ایک چھوٹی سی بچی ہے، اتنی دوائیں نہیں کھا سکے گی۔

ڈاکٹر صاحب فوراً بولے، اچھا! کوئی بات نہیں میں کیپسول کے بجائے سیرپ دے دیتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب دوائیں کم کرنے پر آمادہ دیکھائی نہیں دیتے تھے۔

مجھے ایسا لگا کہ میں کسی ڈاکٹر کے بجائے ڈرگ ڈیلر کے پاس آئی ہوں، جو بغیر کسی مرض کی تشخیص کے زیادہ سے زیادہ دوائیں فروخت کرنے کی فکر میں ہے۔

سو ہم نے ان تمام دواؤں کا بل ادا کیا اور کیپسولز کا ڈھیر اٹھائے گھر کی راہ لی۔ بیٹی کو صرف بخار کم کرنے کا ایک سیرپ پلا کر اگلے دن اپنے معالج سے رجوع کیا، جنہوں نے تمام علامات تسلی سے سن کر بچی کا تفصیلی معائنہ کیا۔

اپنی تشخیص سے ہمیں آگاہ کیا اور ایک پرچے پر صرف دو سیرپ لکھ دیے۔

جرمنی میں پاکستانی نژاد سائنسدان آصفہ اختر کا منفرد اعزاز

نہ ہسپتالوں میں جگہ، نہ آکسیجن سلنڈر میسر، مریض بدحالی کا شکار

جب کبھی بھی ہمارے یہ معالج دستیاب نہ ہوں اور ہم کسی اور ڈاکٹر سے رجوع کریں تو یہی مشاہدہ ہوا کہ بیشتر ڈاکٹر مریض کو ایک گاہک (کسٹمر) سمجھ کر زیادہ سے زیادہ سودا بیچنے کی فکر میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

اپنے پیشے سے مخلص اور ایماندار ڈاکٹرز ویسے ہی نایاب ہوتے جا رہے ہیں، جیسا کہ کسی بیوپاری کا ایماندار ہونا آج کل عبث ہے۔

ڈاکٹرز کے کلینک بھی کسی بیوپاری کی دکان کی طرح مختلف درجات کے ہوتے ہیں۔ جتنا مہنگا انٹیرئیر ہو گا، اتنی ہی زیادہ ڈاکٹر کی فیس ہو گی۔ اور اسی لحاظ سے آپ کو مختلف سروسز فراہم کی جائیں گی جو کہ آپ کی جیب ہلکی کرنے کا باعث تو ہو سکتی ہیں لیکن آپ کی بیماری کی تشخیص میں مددگار شاید ہی ہوں۔

البتہ مختلف اقسام کے غیر ضروری ٹیسٹوں میں آپ کو الجھا کر یہ ضرور باور کرایا جائے گا کہ شاید آپ کسی سنگین بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔

معالج کا پیشہ وجود میں آیا تو اسے مسیحا کا نام دیا گیا اور علاج کرنا عبادت کہلایا مگر جیسے ہی علاج کاروبار بنا تو معالج نے بھی ایک ساہوکار کا روپ دھار لیا اور ساہوکار کا تو کام ہے منافع کمانا ہے۔

ایک تاجر کے مدنظر صرف اس کا منافع ہوتا ہے اور تجارت کی فطرت میں تو "ہل من مزید" کا رجحان ہوتا ہے۔

لہذا ہمارے ڈاکٹروں کی اکثریت آج مسیحا کے بجائے کمیشن ایجنٹ بن چکی ہے۔ یہ بات تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ڈاکٹرز کو ادویات کی کمپنیاں بڑی بڑی آفرز دیتی ہیں کہ ہماری ادویات مخصوص مدت میں مخصوص مقدار میں آپ کو فروخت کرنی ہیں۔

ٹارگٹ پورا کرنے پر گاڑی، کیش انعام، غیرملکی ٹورز وغیرہ سے نوازا جاتا ہے۔

اسی طرح مختلف برانڈز کی ادویات کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کسی ایک مرض کے لیے اگر مارکیٹ میں پانچ روپے کی گولی دستیاب ہے تو یہی دوا کوئی دوسرا برانڈ بہت مہنگے داموں بھی بیچ رہا ہو گا۔ ہمارے ڈاکٹر حضرات ماشااللہ سے وہی دوا تجویز کریں گے، جس کی کمپنی انہیں زیادہ مراعات دے رہی ہو گی، اس بات سے قطع نظر کہ مہنگی دوا مریض کی جیب پر کتنی بھاری پڑے گی۔

پاکستان سمیت پوری دنیا میں تمام ڈاکٹرز جب اپنی ڈگری وصول کرتے ہیں تو انہیں ایک حلف اٹھانا ہوتا ہے اور اس حلف کو اٹھاتے وقت ڈاکٹرز اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی قسم کھاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ اپنے ذاتی مفادات پر مریض کے مفاد کو فوقیت دیں گے۔ لیکن آج کل کے ڈاکٹرز ہپوکریٹ اوتھ کو شاید منافقت کا حلف سمجھ بیٹھے ہیں اور طب کے شعبے میں منافقت اپنا حق سمجھتے ہیں۔

جیسا کہ ایک ساہوکار اپنا حق سمجھ کے منافع لیتا ہے۔ پاکستان میڈیکل کونسل، پاکستان میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی جیسے اداروں کا کردار نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔

پاکستان میں صحت کی سہولیات کے فقدان، دواؤں کی روز افزوں بڑھتی قیمتیں اور ڈاکٹرز کی فیسوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ عطائی ڈاکٹروں سے رجوع کریں، جو اپنے ذاتی میڈیکل اسٹور بھی ساتھ ہی کھول کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کسی لیبارٹری سے کمیشن کی شرط پر ڈیل بھی کی ہوتی ہے، جس کا کام عوام کی جیب سے لاکھوں روپے روزانہ کی بنیاد پر سمیٹنا اور ہزاروں لوگوں میں غلط تشخیص کی بناء پر بیماریاں بانٹنا ہوتا ہے۔

طب کے شعبے میں پائے جانے والی بدعنوانیاں اگر مالی منفعت تک رہتیں تو شاید مادہ پرستی کو الزام دے کر صبر کر لیا جاتا لیکن بات جب اخلاقی گراوٹ تک آ جائے تو پھر چپ رہنا مشکل لگتا ہے۔ ڈاکٹرز کے خلاف کی جانے والی جنسی ہراسانی کی شکایات اب کوئی نئی بات نہیں رہیں۔ 2018 میں لاہور میں شادمان پولیس کے پاس درج کروائی گئی ایک شکایت میں خاتون نے بتایا کہ انہیں سرجری کے دوران ایک ڈاکٹر کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی طرح کے ایک اور واقعے میں مریضہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے ساتھ موجود خاتون کو وارڈ میں ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسے ہی کئی ان گنت واقعات پچھلے کئی سالوں سے ہمارے کان سنتے آئے ہیں اور اب قارئین کے لیے معمول کی خبر بن چکے۔ جب انسان پستی میں گرنا شروع ہو جائے تو پھر اس کی کوئی حد نہیں رہتی۔ اور اگر بات کی جائے کہ حکومت اس معاملے میں کیا کرسکتی ہے تو یقین جانیے عوام کی جان مال اور صحت کسی گنتی میں نہیں ہیں۔

جب کورونا کے خطرے کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کو اپنے جلسوں اور الیکشن کی فکر ہے تو پھر اپنی جان، مال، عزت اور صحت کی حفاظت عوام کو خود کرنا پڑے گی۔ ایک غریب آدمی اپنا پیٹ کاٹ کر علاج کرائے، مہنگی دوائی خریدے، بلاوجہ کے ٹیسٹ کرائے اور ساتھ ہی اپنی عزت کی بھی حفاظت کرے یا پھر زیادہ آسان یہ ہے کہ بس مر جائے؟